اظہر سید
دنیا کی بساط پر ہم لڑائی ہار چکے ہیں ۔سیکورٹی ریاست کا تصور اس وقت ختم ہو گیا تھا جب بھارتیوں نے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی وفاق کا حصہ بنا لیا اور ہم کمزور معیشت کا بہانہ بنا کر دم سادے بیٹھے رہے ۔ہمارے پاس بقول شخصے جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی تھی اور ایٹمی طاقت تھے لیکن ہم چپ چپیتے ایک لاکھ شہید کشمیریوں کے غم میں نصف گھنٹہ دھوپ میں کھڑے ہو کر احتجاج کے علاؤہ کچھ نہیں کر پائے ۔
تزویراتی گہرائی کو ہم نے اس دن دفن کر دیا جب طالبعلموں کو افغان حکومت دلا کر امریکی کی جان کمبل سے چھڑا دی اور بعض اثاثوں کی سیٹلمنٹ یا بحالی کے نام پر انہیں صرف جیلوں سے رہا نہیں کیا بلکہ تزویراتی گہرائی والے ملک سے واپس پاکستان میں لانے کی عظیم حکمت عملی بنا کر عملدرآمد بھی شروع کر دیا ۔
کشمیر ستتر سال اور تزویراتی گہرائی چالیس سال سے ہمارے کملوں کو دانے دے کر سیانا بنائے ہوئے تھی اور اب یہ دانے ختم ہو گئے ہیں ۔ پاکستان دیوالیہ ہو کر سیانوں کی عقلمندیاں بھی فاش کر چکا۔
افغانستان گزشتہ چالیس سال اور کشمیر قیام پاکستان کے بعد سے سیکورٹی ریاست کا جواز تھا ۔ اب یہ جواز ختم ہو چکا ہے ہم تہی دامن کھڑے دبے پاؤں بڑھتی ،تیزی سے قریب آتی انارکی کے منتظر ہیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے ہمیں تباہی کے گھاٹ اترتی معیشت کا احساس ہی نہیں ہے ۔
ریت میں سر چھپائے بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں محفوظ ہیں۔حقیقت یہ ہے ہمارے پلے سوائے عالمی سطح پر رسوائی کے کچھ بھی نہیں ۔خالی ہاتھ بیٹھے ہیں اور سیکورٹی ریاست کا دامن تھامے بیٹھے ہیں ۔
تزویراتی گہرائی اور کشمیر کو دامن سے جھاڑنے کے بعد کون سوچے گا ہم سیکورٹی ریاست نہیں بلکہ دیوالیہ ریاست ہیں۔
جب کوئی چیف یہ کہے ہمارے پاس ٹینکوں میں ڈالنے کیلئے پٹرول کے پیسے نہیں تو پھر سمجھ لیں اس بساط پر آپکی ہر چال غلط تھی ۔
سمجھ لیں معیشت ہی حقیقت ہے ۔جان لیں ریاست ٹینکوں اور میزائلوں سے نہیں معیشت سے بچے گی ۔ٹینک اور میزائل تو سوویت یونین کے پاس ہم سے بہت زیادہ تھے جب وہ معیشت کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گیا ہم کیا بیچتے ہیں ۔
وقت ختم ہو چکا ہے ۔تیزی سے بڑھتی انارکی کو روکنے کیلئے جتنا جلدی خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آجائیں بہتر ہے ۔
معیشت بچ گئی سب کچھ بچ جائے گا ۔ڈی ایچ اے،کارپوریٹ مفادات ،کنٹونمنٹس کے محفوظ جنتی علاقے ،مراعات اور اشرافیہ میں شمولیت سب کچھ بچانا ہے تو ریاست کو سیکورٹی ریاست کی بجائے معاشی ریاست بنانا ہو گا ۔
جو کچھ چل رہا ہے راستے غیر محفوظ ہو جائیں گے ۔راستے غیر محفوظ ہو جائیں تو پھر گھروں میں بیٹھنا پڑے گا لیکن زیادہ دیر گھر بھی محفوظ نہیں رہیں گے ۔اگ لگی تو سارے گھر زد میں آتے ہیں ۔
ابھی بچ نکلنے کے امکانات ہیں ۔ہمسایہ ممالک کے ساتھ دشمنی کی خارجہ پالیسی ختم کر کے تجارت کی طرف آجائیں ۔
فرانس اور جرمنی صدیاں گزر گئیں ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے اب یورپین یونین بنا کر بیٹھے ہیں۔
چین اور بھارت کی باہمی تجارت ڈھائی سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے ۔
تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں سیکورٹی ریاستیں نہیں بلکہ معاشی ریاستیں زندہ رہیں گی ۔ یہ حقیقت ہے اسے جتنی جلدی جان لیں اس بدقسمت ملک کیلئے بہتر ہے۔
واپس کریں