اظہر سید
ریاست پر ملکیت کا جو کھیل اسوقت چل رہا ہے بہت جلد نوسر باز کی بجائے مالکوں اور پارلیمنٹ کی طرف منتقل ہو جائے گا ۔ پی ڈی ایم اب لڑائی لڑنے پر آمادہ ہے اور مالکوں کو جلد بدیر نوسر باز کے ساتھ بظاہر نظر آنے والی لڑائی ختم کرنا پڑے گی یا پھر طاقتور پارلیمنٹ کا بھیانک خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھنا پڑے گا ۔اصل مخمصہ مالکوں کا ہے ۔ پارلیمنٹ کی طاقت کے راستے میں دیواریں کھڑی نہیں کرتے تو پارلیمنٹ مالکوں کے پالتو ججوں سے چھٹکارہ حاصل کر لے گی ۔بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہو گی بلکہ طاقتور پارلیمنٹ پوری طاقت سے اپنے تمام کھوئے ہوئے اختیارات بھی حاصل کرے گی اور سی پیک پر تیز رفتار عملدرامد سے امریکی ہرکاروں کو بھی پیچھے ہٹا دے گی ۔
مالکوں کا مخمصہ یہ ہے نوسر باز پر دوبارہ داؤ لگاتے ہیں تو انکی حب الوطنی پر سوالات کھڑے ہونگے ۔
فوج کے خلاف منظم پراپیگنڈہ ،چار سال میں ریاست کی معاشی تباہی اور نادہندگی ،تحریک عدم اعتماد کے موقع پر امریکی سازش کا نام لے کر اسمبلیاں توڑنے کا مجرمانہ اقدام اور پھر بڑے پیمانے پر کرپشن لوٹ مار کے واضح شواہد کے باوجود نوسر باز کو پھر سے اقتدار دینا ایک بہت بڑا فیصلہ ہو گا ۔ففتھ جنریشن وار نے فوج ایسے ادارے میں اس قدر تقسیم پیدا کر دی ہے کہ گوجرانولہ میں نواز شریف نے آرمی چیف اور جنرل فیض کا نام لیا تو انکی اپنی جماعت کے تین ریٹائرڈ جنرل چین آف کمانڈ کا نعرہ مستانہ بلند کر کے پارٹی چھوڑ گئے اور فوج کی طرف سے ناپسندیدگی کی آوازیں آنے لگیں ۔
نوسر باز نے آرمی چیف کو جانور کہا،میر جعفر ،میر صادق کہا لیکن ریٹائرڈ جنرلوں کی ایک بڑی تعداد نوسر باز کے ساتھ کھڑی ہو گئی ۔ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم پریس ریلیز پر پریس ریلیز جاری کرنے لگی جنرل باجوہ کے حق میں نہیں بلکہ عمران خان کے حق میں ۔چین آف کمانڈ گئی تیل لینے ۔
یہ وہ تضاد ہے جو خوفناک زلزلہ کی علامت ہے ۔یعنی تقسیم صرف قوم میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ تقسیم کے اثرات بہت ہمہ گیر ہیں۔
عمران خان کو عدالتوں میں جو سہولت کاری حاصل ہے وہ عمران خان کو نہیں بلکہ مالکوں کی ریاست کی ملکیت نہ چھوڑنے کی ضد کی وجہ سے ہے ۔
پی ڈی ایم سے محبت ہوتی یا پھر عمران خان سے نجات میں سنجیدگی ہوتی تو صرف فوج کے خلاف زہریلہ پراپیگنڈہ ہی اسے ارشد شریف بنانے کیلئے کافی تھا ۔
تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کیلئے امریکی سازش کا فراڈ ہی لٹکانے کیلئے کافی تھا ۔ائی ایم ایف پروگرام کے خلاف سازش ہی نجات کا بہت بڑا جواز تھا ۔
ہم دیکھتے ہیں اصل مقدمات کی بجائے کبھی عدت میں نکاح کرنے اور کبھی ٹریان کا کیس چلا کر احتساب کا ڈرامہ کیا جاتا ہے اور جو اصل مقدمات ہیں ان پر بھولے سے بھی کام نہیں کیا جاتا ۔
جونیئر ججوں کا سپریم کورٹ میں آنا صرف شہباز شریف کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ زرداری اور مولانا فضل الرحمان بھی ان بورڈ تھے ۔
پی ڈی ایم کے سیانے پارلیمنٹ میں ججوں کے خلاف ریفرنس سے پالتو ججوں سے نجات حاصل کر لیں گے کی سوچ کے تحت چل رہے تھے ۔
ہم سمجھتے ہیں اصل مشکل میں مالکان ہیں پی ڈی ایم والے نہیں ۔نوسر باز کی فراغت کیلئے غیر جانبداری سے انہوں نے صرف غلطیوں کا اعتراف نہیں کیا بلکہ حب الوطنی بھی ثابت کر دی ۔
اب ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ پاکستان کو تبدیل کرنا ہے یا جس طرح چل رہا ہے اسی طرح چلانا ہے یعنی پالتو میڈیا ،پالتو ججوں کی مدد سے داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی ملکیت برقرار رکھنا ہے ۔
بہت مشکل وقت آن پڑا ہے ۔پارلیمنٹ کی قانون سازی کے راستے میں دیوار بناتے ہیں تو پاکستان بھگتے گا ۔نہیں بناتے تو ریاست بہت طاقتور ہوتی ہے وہ پارلیمنٹ کے زریعے سب کو قابو کر لے گی ۔
اس وقت اصل لڑائی عدلیہ یا نوسر باز کے ساتھ نہیں بلکہ مالکان اور پارلیمنٹ کے درمیان ہے ۔
مالکوں نے مداخلت نہ کی تو پارلیمنٹ جیت جائے گی اور اگر مداخلت کی تو پاکستان قائم رکھنے کیلئے نیا سوشل کنٹریکٹ ہی واحد آپشن بچے گی ۔
ملک نادہندہ ہے ۔2018 کی غلطی کا اعتراف ہو چکا ہے ۔قوم تقسیم ہو چکی ہے ۔تمام صورتحال سامنے ہے ۔ یہ وہ مخمصہ ہے جس نے مالکوں کو پریشان کر رکھا ہے ۔
ایک طرف چار مارشل لاؤں کے نتیجہ میں چالیس سال سے زیادہ براہ راست ریاست پر حکومت کا تجربہ اور میڈیا عدلیہ انفراسٹرکچر ہے ،دوسری طرف مسلسل مداخلت اور اپنے بنائے سیاستدانوں کی وجہ سے ہر شعبہ میں پیدا ہونے والی ابتری اور افراتفری کے نتایج ہیں ۔ملکیت چھوڑنے کا سوچیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے نہ چھوڑیں تو ملک نادہندہ ہو رہا ہے ۔ایک طرف کنواں ہے تو دوسری طرف کھائی ۔
حافظ صاحب کی تو چھوڑیں اگر مریم نواز بھی چیف بن جائیں وہ بھی اس انفراسٹرکچر کی وجہ سے وہی کچھ کریں گے جو جنرل باجوہ نے کیا ۔یہ ملک ہم سب کا ہے اور یہ ہمارے بچوں کے سر کی چھت ہے ۔یہ اب پہلے کی طرح نہیں چل سکتا ۔مالکوں کا جو ستتر سال کا مائنڈ سیٹ ہے اس کے ساتھ پاکستان نہ مہذب جمہوری ریاست بن سکتا ہے اور نہ معاشی طور پر طاقتور ہو سکتا ہے ۔حالات کا جبر پارلیمنٹ کو مستحکم کرے گا اور مہذب جمہوری ریاست بنائے گا ۔جس حب الوطنی نے معاشی تباہی دیکھ کر غیر جانبداری اختیار کی وہی حب الوطنی مالکوں کو اپنے مائنڈ سیٹ سے رجوع کرنے پر مجبور کرے گی ۔پارلیمنٹ کو مالکوں کے مخمصہ کا اچھی طرح اندازہ ہے اسی لئے پارلیمنٹ نے تین ججوں کے الیکشن کرانے کے اقلیتی فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے قرارداد کے زریعے مسترد کر دیا ہے ۔مالکوں کیلئے اب کوئی آپشن نہیں کھل کر سامنے آئیں یا پھر ابتری اور افراتفری کا کھیل تماشا جاری رکھنے کی اجازت دیں ۔
حالات کا جبر اس قدر زیادہ ہے پارلیمنٹ اگر مضبوط قدموں پر کھڑی رہی تو قومی سلامتی کمیٹی کا جو اجلاس وزیراعظم کی صدارت میں ہونے جا رہا ہے وہاں مالکوں کو حکومت کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا یا پھر کھل کر پارلیمنٹ کی قرارداد کی مخالفت کرنا پڑے گی ۔جس طرح حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہے اس طرح مالکوں کی نمائندگی حافظ صاحب کے پاس ہے ۔حافظ صاحب کے پاس پارلیمنٹ کی قرارداد کی روشنی میں آئین اور قانون کے ساتھ کھڑا ہونے کا شاندار موقع ملا ہے اور اپنے کامریڈز کو "پیچھے ہٹ جاؤ" کہنے کا جواز بھی مل گیا ہے ۔
واپس کریں