اظہر سید
سرزمین بے آئین میں تین لوگ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنے بینچ میں آئین کا آرٹیکل 63 اے دوبارہ لکھتے ہیں اور پنجاب میں اس شخص کی حکومت دوبارہ بنوا دیتے ہیں جس کو وہ ماضی میں بینچ کے سربراہ ایک تین رکنی بینچ میں بیٹھ کر صادق و امین قرار دے چکے ہیں۔آئین سازی پارلیمنٹ کا حق ہے اور عدالتیں صرف تشریح کر سکتی ہیں آئین دوبارہ نہیں لکھ سکتیں ۔ان تین ججوں نے حمزہ شہباز شریف کی حکومت آئین ری رائٹ کر کے ختم کرائی۔ المیہ یہ ہے ملک کی اعلی ترین عدالت کے مخصوص جج ایک ہی معاملہ پر دو متضاد فیصلے دے چکے ہیں ۔جب تین جج پارلیمانی لیڈر کو وہ حق دے رہے تھے جو پارٹی لیڈر کا ہے تو پہلے یہی حق پارلیمانی لیڈر کو دے چکے تھے ۔دونوں فیصلوں میں فائدہ اس شخص کو پہنچایا گیا جسے ماضی میں صادق و امین قرار دے چکے تھے ۔
آئین اور قانون کی یہ عصمت دری کسی مہذب ملک میں ممکن نہیں لیکن پاکستان ایسے ملک میں ضرور ممکن ہے جہاں اعلی عدالتوں کے جج مارشل لا لگتے ہیں چھلانگیں لگاتے ہوئے حلف لینے پہنچ جاتے ہیں۔جنگل بنے اس ملک میں تین چار لوگ جو اعلی عدالتوں میں بیٹھ کر منتخب وزیراعظم کو پھانسی بھی دے سکتے ہیں ،نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کو نااہل بھی قرار دے سکتے ہیں صرف اس لئے کہ انہیں مالکوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے اور مالکوں کا ریاست پر قبضہ برقرار رکھنے میں یہ انکی سہولت کاری کرتے ہیں ۔
حقیقت میں انکی اوقات صرف اتنی ہے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر زرا آنکھیں اٹھا کر دیکھ لے تو فٹا فٹ آئین میں تین سال تک ترمیم کا حق بھی دے دیتے ہیں ۔انصاف کے اسی قتل عام نے اس ملک کو قوموں میں بھکاری ملک بنا دیا ہے۔
آئین کو ری رائٹ کر کے نوسر باز کی حکومت ممکن بنائی اور پھر صوبائی اسمبلی توڑے جانے پر بھنگ پی کر سو گئے کہ آئین میں وزیر اعلی کو اسمبلی توڑنے کا اختیار ہے ۔ان لوگوں سے کون پوچھے گا کہ قومی اسمبلی توڑنے کا حکم تو تحریک عدم اعتماد میں بدنیتی ثابت ہونے پر ختم کر دیا صوبائی اسمبلی بدنیتی سے توڑنے پر کیوں چپ رہے ۔
شطرنج پر مہرے بڑی احتیاط سے لگائے گئے ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف 2018 کا تسلسل ہے ۔ائی ایم ایف شرائط پر عملدرآمد کی وجہ سے صاف نظر آرہا ہے نوسر باز کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے اور مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک متاثر ہوا ہے ۔انتہائی مکاری سے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔نوسر باز کو حکومت دوبارہ نہیں ملے گی لیکن اسے مقدمات میں ضمانتیں دے کر عام انتخابات کیلئے محفوظ رکھا جا رہا ہے تاکہ حکومت سنبھال کر اپنا ووٹ بینک گنوانے والے موجودہ حکمران الیکشن میں نقصان اٹھائیں اور نوسر باز کو اتنی سیٹیں دے دی جائیں کہ مستقبل کی حکومت آئینی ترامیم کر کے ریاست کی ملکیت ججوں اور مالکوں سے واپس نہ لے سکے ۔
صوبائی اسمبلی توڑے جانے کے فورا بعد نوے دن کے اندر الیکشن کی دہائیاں شروع کر دی گئیں ۔ سی سی پی او لاہور کے تبادلے کے معاملہ پر اچانک نوے دن کا الیکشن یاد آگیا اور سو موٹو کی درخواست دے دی گئی اور درخواست کس نے کی ؟ مظاہر نقوی اور اعجاز الاحسن ۔وہی معروف چار کے ٹولہ کے دو جج جن میں ایک نواز شریف کے مقدمہ میں نگران جج تھا اور دوسرا ٹرکاں والا کے نام سے مشہور ہے ۔
سو موٹو کی درخواست قبول ہوئی جو ہونا ہی تھی کہ سب کچھ طے شدہ تھا۔جو بینچ قائم ہوا وہ مخصوص ججوں کا ہی بینچ تھا ۔اڈیو ویڈیو ٹیپ اور برادر ججوں کے اعتراض پر دو مخصوص جج اعجاز الاحسن اور مظاہر نقوی نکل گئے باقی آئین ری رائٹ کا فیصلہ لکھنے والے منیب اختر بینچ میں شامل کر لئے گئے، دو نئے جج اطہر من اللہ اور یحییٰ آفریدی شامل کر لئے گئے لیکن تین ہم خیال بینچ میں رکھنا نہ بھولے ۔دو ججوں اطہر من اللہ اور یحیٰی آفریدی کے اعتراضات کے بعد نیا بینچ بنا دیا جس میں دو نئے جج جمال مندوخیل اور منصور علی خان شامل کئے لیکن اس بینچ میں بھی تین ہم خیال عمر عطا بندیال ،منیب اختر اور پچھلے بینچ سے نکلنے والے اعجاز الاحسن شامل تھے ۔
ان لوگوں سے کون پوچھے گا کہ اعجاز الاحسن تو خود علحیدہ ہو گئے تھے دوبارہ بینچ میں کیوں شامل ہو گئے ؟
یہ صاف اور کھلی بددیانتی ہے ۔دو جج اطہر من اللہ اور یحییٰ آفریدی پہلے ہی سو موٹو مسترد کر چکے ۔دو جج جمال مندوخیل اور منصور علی خان نے بھی پٹیشن مسترد کر دی تو فیصلہ چار تین کا ہو گیا ۔ایک طرف تین مشہور زمانہ ہم خیال جج اور دوسری طرف آئین اور قانون کی پاسداری کرنے والے چار جج ۔
سپریم کورٹ کے جج بھی "ون مین شو" کی دہائیاں دے رہے ہیں اور چیف جسٹس کے بینچ فکسنگ کے اختیارات کو آئین اور قانون کے خلاف قرار دے رہے ہیں ۔
مسلہ صرف اتنا ہے چار کا ٹولہ اور 2018 کی تبدیلی کی باقیات پکڑی جا چکی ہیں ۔یہ لوگ ملک اور قوم کا تماشا بنا رہے ہیں۔ یہ مہنگائی ،ابتری اور افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن الیکشن کھیل کر صرف اپنی کھالیں بچا رہے ہیں۔
عمران خان سے کسی کو ہمدردی نہیں لیکن اس کی آڑ میں یہ لوگ مالکوں کو بھی خوش کر رہے ہیں کہ اسے بچا کر الیکشن میں اتنی سیٹیں ضرور مل جائیں گی اگلی حکومت آئینی ترامیم کر کے ریاست کی ملکیت واپس نہیں لے سکے گی ۔
نئے الیکشن سے پہلے بہت سارے فیصلے بہت ضروری ہیں۔ آئین ری رائٹ کرنے والے کرداروں کو سزا ملنا بہت ضروری ہے ۔
تمام سیاسی مقدمات میں سپریم کورٹ کے پندرہ ججوں کی بجائے صرف تین ججوں اعجاز الاحسن،مظاہر نقوی اور منیب اختر کو کیوں شامل کیا جاتا ہے اسکا جواب لئے بغیر پارلیمنٹ ہر گز مستحکم نہیں ہو سکتی اور نہ جمہوری پاکستان ممکن ہے ۔
الیکشن ضروری ہیں لیکن پہلے آئین توڑنے والوں کو سزا ملنا زیادہ ضروری ہے ۔اسکے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ۔
جن لوگوں کو بڑی زور سے نوے دن کے اندر الیکشن کا آئین آیا ہوا ہے ان سے سوال پوچھا جانا ضروری ہے جب آئین ری رائٹ کر کے صادق و امین کی صوبائی حکومت بنوائی تھی اسوقت آئین کہاں تھا ۔
جب بدنیتی سے اسمبلیاں توڑی گئیں کہ الیکشن میں سیاسی فائدہ ہو گا اسوقت آئین اور قانون کہاں تھا ۔
اور یہ آئین اور قانون صرف چار ججوں کو کیوں آیا ہوا ہے جو ہر بینچ میں شامل کر دئے جاتے ہیں ۔جب تک ان سوالوں کے جواب نہیں ملیں گے ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا ۔
واپس کریں