دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کتوں کے بھونکنے سے گاڑی نہیں رُکتی
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
اختلاف رائے اور احتجاج کے نام پر بدتہذیبی، عدم برداشت، گالم گلوچ ایسی تلخ چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں، جسکی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ مذہبی فرقہ پرستی اور فرقہ واریت کا شکار پاکستانی معاشرہ سیاسی شخصیت پرستی اور سیاسی فرقہ پرستی کی دلدل میں ڈوب چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پیروکاروں نے اپنی اپنی قیادت کو بُتوں کی شکل دی ہوئی ہے۔ خدانخواستہ عبادت کرنا باقی رہ گیا ہے۔ چاہے قیادت میں جھوٹ، چوری چکاری، کرپشن، وعدہ خلافی، غیر اخلاقی اقدار کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہو ں مگر مجال ہے اپنی قیادت کے خلاف ہونے والی جائز تنقید کو برداشت کرسکیں۔ جمہوریت کا مطلب ہرگز ایسا تو نہ تھا کہ اپنے خلاف ہونے والی تنقیدو اختلاف رائے کو زندگی و موت کا مسئلہ بنا لیا جائے؟ آج احتجاج کے نام پر کسی کی فیملی، چادر، چاردیواری محفوظ نہیں رہی۔ کبھی کسی کو سرراہ روک کر گالم گلوچ کی جاتی ہے تو کبھی کسی کے گھر کا محاصرہ کیا جاتا ہے۔یہ کیسی احتجاجی سیاست ہے کہ خانہ کعبہ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، میدان عرفات ایسی مقدس سرزمین بھی گندی سیاست سے محفوظ نہیں رہی۔
گذشتہ دنوں برطانوی تعلیمی درسگاہ میں سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں رکھی تقریب کے موقع پر وہاں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے احتجاج کے نام پر بے ہودہ ہلڑ بازی، گالی گلوچ اور طوفان بدتمیزی کیا گیا۔ یاد رہے رواں برس فروری میں جب جسٹس اطہر من اللہ برطانیہ میں لندن سکول آف اکنامکس میں فیوچر آف پاکستان کانفرنس میں بطور مہمان شریک ہوئے تھے تو اس وقت انکو بھی حراساں کیا گیا تھا۔ دیار غیر میں اپنے ہی پاکستانی شہریوں کے خلاف سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بے ہودہ احتجاج پر پاکستانی ذی شعور عوام شدید غم و غصے کا اظہار کررہی ہے۔ ویسے حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس عمر کے لڑکے لڑکیاں لندن کی سڑکوں پر اپنے مخالفین کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے، ٹھیک اسی وقت انکے لیڈر کے بیٹے اور بیٹی لندن کی پرفضا ہواؤں میں سکون کی نیند سو رہے تھے۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاسی قائد کی اولاد بھی انکے ساتھ مل کر احتجاج کرتی دیکھائی دیتی۔ سوشل میڈیا پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو زومبیوں اور کتوں سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ پہلے میں بھی حیران تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو کتوں سے کیوں تشبیہ دی جارہی ہے۔ مگر کتوں کی درج ذیل عادات کے مشاہدہ کے بعد سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کی سمجھ آنا شروع ہوئی۔
کتوں کو گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے اور بھونکتے اکثر افراد نے دیکھا ہوگا۔ گلی محلہ کی نکر پر بیٹھے کتے کے سامنے سے جب کوئی سائیکل، موٹر سائیکل، کارگزرتی ہے تو کتا اسکے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ہے اور اپنی فطرت کے عین مطابق بھونکتا چلا جاتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھا مسافر اپنی منزل کی طرف روان دواں ہوتا ہے اور چند فرلانگ کے بعد جب کتا گاڑی کی رفتار کو نہیں پکڑپاتا ہے تو چارو ناچار اپنی اسی جگہ پر آکر براجمان ہوجاتا ہے۔ پھر اک اور گاڑی گزرتی ہے تو کتا اسکے پیچھے چل پڑتا ہے۔ اور نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ کتے گاڑیوں پر چڑھ دوڑنے اور بھونکنے کو اپنا مقصدِ عظیم سمجھ کر یکسوئی سے ادا کرتے ہیں۔ یاد رہے گاڑیوں کے پیچھے بھاگنا اور بھونکنا کتوں کا محبوب مشغلہ قرار پاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اک تجزیہ کار نے بطور طنز قرار دیا ہے کہ بھونکنا ہر کتے کا پیدائشی اور جبلی حق ہے۔ کتوں کے بھونکنے کے حق کی نفی کھلی فسطائیت قرار پائے گی۔ لہذاکتوں کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اور انسانوں کو اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہنا چاہیے۔ کتے تاریخ نہیں پڑھتے ایسا کرتے تو گاڑیوں اور انسانوں کے پیچھے بھاگنا اور بھونکنا کب کا ترک کر چکے ہوتے کیونکہ تاریخ میں ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ کوئی کتا اس مشق سے کوئی تبدیلی لے آیا ہو۔ اس تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ یہ پوسٹ محض تاریخ سے سبق نہ لینے کی روش کے بارے میں ہے، کتوں کے '' بھونکنے کے حقوق '' کی نفی نہیں۔ ہم حقوق کتاں کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔
بہرحال تنقیدو اختلاف رائے جمہوریت کا حُسن قرار پاتا ہے۔ شدید ترین مخالف کی تنقید و طنز کا جواب احسن انداز سے کیسے دیا جاسکتا ہے، اسکی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ انتخابی مہم کے دوران برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کا گزر ایک ایسی تنگ گلی سے ہوا جہاں ییک وقت دو آدمی نہیں گزر سکتے تھے۔ مخالف سمت سے ایک حزب اختلاف کا لیڈر آدھمکا۔ دونوں ایک دوسرے کودیکھنے لگے۔ مخالف لیڈر نے کہا ”میں گدھوں کوراستہ نہیں دیتا“۔ ”لیکن میں رستہ د ے دیا کرتا ہوں۔“ ونسٹن چرچل نے خود کو سمیٹ کر اسے راستہ دے دیا۔
پاکستانی شہری اپنے پسندیدہ قائدین سے کتنی محبت کرتے ہیں اسکا اظہار گاہے بگاہے دیکھنے کو ملتا رہتا ہے کہ کس طرح انکے لیڈر پر ہونے والی مثبت تنقید پر انکے پیروکار مخالف سیاسی لیڈرشپ و عام افراد کو ماں بہن کی ننگی گالیاں نکالتے دیکھائی دیتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ ایک دوسرے کو لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے دار آجکل ہم نوالہ اور ہم خیال ہیں۔ ڈیزل ڈیزل کے نعرے مارنے والے اسی کی امامت میں نمازیں ادا کرتے دیکھائی دیئے۔ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو اپنا وزیراعلی بناتے وقت لیڈر نے شرم محسوس نہ کی۔ میری نظر میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو خود کی اصلاح اور پھر اپنے پیروکاروں اور ہمنواؤں کی تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ تنقید، اختلاف رائے کو زندگی موت کا مسئلہ نہ بنائیں۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان ہم سب کا ہے۔ لیکن اگر پھر بھی کوئی اختلاف رائے کو زندگی و موت کا مسئلہ بنائی رکھنا چاہتا ہے تو اسکے لئے صرف یہی جملہ کہنا کافی ہوگا کہ کتوں کے بھونکنے سے گاڑی نہیں رُکتی۔
واپس کریں