دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انتقام نہیں کام۔ محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بالآخر خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان پہنچے اور عظیم عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنی مستقبل کی سیاسی حکمت عملی کو واضح کیا۔ انکے خطاب کا خلاصہ کیا جائے تو درج ذیل معاملات واضح ہوتے ہیں۔ اپنے خطاب میں میاں نواز شریف نے کہا میں انتقام لینا نہیں چاہتا بلکہ ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں ۔ آئین پرعمل درآمد کرنےوالےریاستی ادارے ، جماعتیں، سیاستدانوں اور ریاست کے ستونوں کومل کرکام کرناہوگا،کھوئے مقام کو پانے کے لیے ڈبل اسپیڈ سے دوڑنا ہوگا۔ ترقی کیلئے کشکول توڑنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمسایوں سے لڑائی نہیں کشمیر کیلئے وقار سے آگے بڑھنا ہوگا،لیگی قائد نے کہا کہ آئندہ کسی کو یہ اجازت نہ دینا کہ آپ کے ملک کے ساتھ یہ کھلواڑ کرسکے، میں نے آج بڑے صبر سے کام لیا ہے،میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو سمجھتا ہوں نہیں کرنی چاہیے، پاکستان کو نئے سفر کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے زخموں کو نہ چھیڑو ورنہ آنسوؤں کا طوفان آجائیگا۔ بنگالی بھائیوں کے حقوق سے چشم پوشی کی سزا ملک دولخت ہونے کی صورت میں ملی۔ میاں نواز شریف کے خطاب کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں خصوصا پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو حرف تنقید نہیں بنایا، باوجود اسکے کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں عسکری و عدلیہ میں اپنے کرم فرماؤں کی بدولت شریف خاندان پر ظلم کے پہاڑ ڈھا ئے۔ عمرانی دور میں شریف خاندان کے افراد کو جیلوں و عدالتوں میں ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ عمرانی دور میں پاکستان مسلم لیگ ن کی اعلی درجے کی قیادت کو کھڈے لائن کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ کسی کوکرپشن تو کسی کو منشیات کے من گھڑت مقدمات میں الجھائے رکھنا عمرانی دور حکومت میں عام سی بات تھی۔ عمرانی دور حکومت عمران خان اور عسکری و عدلیہ میں پائی جانے والی انکی حمایتی خلائی مخلوق گٹھ جوڑ کی بدولت چُن چُن کر حزب اختلاف کے سیاستدانوں یہاں تک کہ انتہائی محنتی و قابل بیوروکریٹس کو مہینوں کے حساب سے پابند سلاسل کیا جاتا رہا۔
حوالے کے طور پر چند مثالیں بیان کرنا ضروری ہے ۔جیسا کہ احد چیمہ1148دن۔سید خورشید شاہ 765دن۔حمزہ شہباز 627 دن ۔ فواد حسن فواد 510دن۔خواجہ سعد رفیق نے 462 دن ۔میاں نوازشریف 374 دن ۔حنیف عباسی 352دن۔ شہبازشریف 340دن ۔حافظ نعمان 305دن۔کامران مائیکل 270 دن ۔راجہ قمر السلام 248دن۔شاہد خاقان عباسی 222دن۔یوسف عباس 215دن۔ فریال تالپور 187 دن ۔آصف علی زرداری 185دن۔خواجہ آصف 176 دن ۔رانا ثناء اللہ 174 دن ۔مریم نوازشریف 157 ۔مفتاح اسماعیل 140 دن ۔احسن اقبال 66 دن۔میاں جاوید لطیف56دن۔کیپٹن صفدر 53 دن اورعرفان صدیقی 6دن ان افراد نے بنا کسی جرم جیل میں گزارے۔ بہرحال 21 اکتوبر کی شام میاں محمد نواز شریف کا خطاب اک ایسے پُرسکون اور بدلے کی آگ سے خالی دل اک عظیم فاتح کا خطاب تھا جس میں عاجزی، شائستگی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمرانی دور میں حکمران حسد، تکبر اور عہدوں کے گھمنڈ میں اپنے سیاسی حریفوں کو کھڈے لائن لگانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہےاور یہ بات بھول گئے کہ غرور اور تکبر میرے رب کو پسند نہیں ہے۔ سدا بادشاہی میرے رب کی ہے۔ میرا رب وقت بدلنے میں دیر نہیں لگاتا۔ وہ رب چاہے تو حضرت یوسف علیہ السلام کو قید سے نکال کر سیدھا مصر کا بادشاہ بنا دے ۔
میرا رب چاہے تو خدائی دعوے کرنے والے فرعون کا غرور چند لمحوں میں دریائے نیل میں بہا دے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جب وزارت عظمیٰ پر براجمان عمران خان منہ پر ہاتھ پھیرپھیر کر نواز شریف کو جیل میں بند کرنے، جیل سے اے سی نکالنے اور گھر کے کھانے کی پابندیاں لگانے کی بات کیا کرتے تھے۔آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ انہی کے اہل خانہ عدالتوں میں عمران خان کے لئے گھر کے کھانے کی اجازتیں لیتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے جب کلثوم نواز کے مرض الموت کے وقت نواز شریف جیل سپرنٹنڈنٹ سے لندن میں موجود اپنے بیٹوں سے ٹیلیفونک رابطہ کرنے کے لئے منت ترلہ کرتے رہے مگر انکو اجازت نہ ملی۔ آج عمران خان لندن ہی میں موجود اپنے بیٹوں سے ٹیلیفونک رابطہ کے لئے عدالتوں میں درخواستیں جمع کروا رہے ہیں۔
میاں نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان ، عمران خان سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے سربرہان اس وقت عمر کے آخری حصہ میں پہنچ چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ ماضی میں ہونے والی تمام تر تلخیوں کو بھول کر آگے بڑھے ، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں، ایک نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد رکھیں اور مملکت پاکستان کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی بحرانوں سے نکال باہر کریں۔ ریاست پاکستان نے اپنے وجود سے لیکر آج تک 76سالوں میں بہت کچھ گنوایا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سب پاکستانی سیاسی و مذہبی فرقہ پرستی سے باہر نکل کر مملکت پاکستان کی فلاح و بہبود کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔ کیونکہ ریاست پاکستان کی فلاح وبہود کے لئے اب انتقام نہیں صرف کام ہی چلے گا۔
واپس کریں