دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایران اور بھارت کے درمیان 10سالہ معاہدہ۔آغا مسعود حسین
No image ایران اور بھارت نے گذشتہ چاہ بہار پورٹ کو جدید طرز پر بنانے کے سلسلے میں ایک دس سالہ معاہدہ کیاہے۔ یہ ایک طرح کا نیا کوریڈور ثابت ہوگا۔ اس معاہدہ سے براہ راست سی پیک متاثر ہوسکتاہے۔ واضح رہے کہ بھارت اور ایران کے درمیان چاہ بہار پورٹ کے درمیان پہلا معاہدہ 2003 ء میں ہواتھا۔ بعد میں 2016ء میں اس میں افغانستان بھی شامل ہوگیا تھا۔ بھارت نے افغانستان کو چاہ بہار پورٹ سے ملانے کے سلسلے میں ایک لمبی سڑک بھی تعمیر کی ہے‘ جوا س وقت بھی فعال ہے ۔ایران اور بھارت کے درمیان دس سالہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے‘ جب بھارت میں عام انتخابات تقریباً ختم ہونے والے ہیں ‘ اس معاہدے کو نریندر مودی اپنے حق میں استعمال کرکے بھارت کے انتہا پسند ہندوئوں کے ووٹ خاصی تعداد میں حاصل کرسکتاہے‘ ویسے بھی یہاں اس بات کو فراموش نہیں کرناچاہیے کہ بھارت سی پیک کے شروع سے ہی خلاف تھا اور اس نے گمراہ بلوچوں کی مدد سے اس اہم پروجیکٹ کیلئے سیکورٹی سے متعلق اہم مسائل پیدا کئے تھے۔ چینی انجینئرنگ قتل کئے گئے اور ان افراد کو بھی جواپنی روزی روٹی کمانے کیلئے گوادر کارخ کرتے ہیں۔ بھارت گمراہ بلوچوں کو سی پیک کے خلاف مسلسل استعمال کررہاہے۔ مالی امداد کے ذریعے اور انہیں اپنے بعض مخصوص علاقوں میں تخریبی کارروائیوں کے سلسلے میں تربیت بھی دیتارہاہے ۔
چنانچہ ایران اور بھارت کے درمیان چاہ بہار پورٹ سے متعلق دس سالہ معاہدہ ہر لحاظ سے سی پیک کے لئے مسائل کھڑے کرسکتاہے ہرچند کہ ایران سی پیک کے سلسلے میں کچھ تحفظات ضرور رکھتاہے‘ لیکن وہ پاکستان اور چین کے درمیان اس اہم منصوبے کو کسی بھی طرح سبوتاژ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتاہے۔ بلکہ ایران کی قیاوت نے اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے کہاہے کہ چاہ بہارپورٹ اورگوادر پورٹ تجارت کے پس منظر میں ایک دوسرے کے complimentary ثابت ہونگے۔ تاہم بھارت کا رویہ سی پیک کے سلسلے میں اتنا خوش آئند نہیں ہے جیسا کہ ایران کا ہے تاہم اس سلسلے میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ کیا ایرانی صدر رئیسی نے پاکستان میں اپنے تین روزہ قیام کے دوران اس اہم مسئلہ پر پاکستانی احکام کے ساتھ گفت وشنید کی ہے‘ اگر کی ہے تو پاکستانی عوام کو اس سلسلے میں کسی قسم کی اطلاع نہیں ہے۔ نیز ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ کیا امریکہ‘ بھارت اور ایران کے درمیان اس معاہدے کو تسلیم کرتاہے جبکہ ایران پر امریکہ کی جانب سے معاشی پابندیاں عائد ہیں‘کیا اس کا اطلاق اس معاہدے پر نہیں ہوگا؟ اس ضمن میں امریکہ نے کھل کر کوئی بیان نہیں دیاہے‘ لیکن باخبرذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ بھارت کی وجہ سے اس معاہدے کا حامی نظرآتاہے۔ کیونکہ بھارت اور امریکہ باہم مل کر سی پیک کوناکام بنانا چاہتے ہیں۔ چین بھارت اور امریکہ کا دوست نہیں ہے‘ لیکن دشمنی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ چین کی بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارت کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اور آئندہ بھی ایسا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔بھارت کی اکانومی بھی مسلسل بڑھ رہی ہے اور اب یہ دنیا کی پانچویں بڑی اکانومی بن چکی ہے۔
تاہم چین کیلئے چاہ بہار پورٹ پربھارت کی جانب بڑی تعداد میں سرمایہ کاری کی وجہ سے چاہ بہار پورٹ سے افریقہ ‘ سینٹرل ایشیا‘ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے لئے تجارتی راہداری کھل جائے گی۔ جس کے سی پیک پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارت اور ایران کے درمیان چاہ بہار پورٹ سے متعلق معاہدے کے بعد چین بھی سوچ رہاہے کہ کسی تیسرے ملک کو سی پیک میں شامل کرکے اس کو زیادہ فعال اور طاقتور بنایاجاسکے۔ پاکستان کو ایران اور بھارت کے درمیان چاہ بہار پورٹ سے متعلق معاہدے پر تشویش ضرور ہے لیکن ابھی تک پاکستان کی جانب سے کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیاہے۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتا ہے ماسوائے اس کے کہ سی پیک کے سیکنڈ فیز کو زیادہ تیز کرکے وہاں غیر ملکی سرمایہ کی حوصلہ افزائی کی جائے‘ نیز گمراہ بلوچی نوجوانوں کی جانب سے سی پیک کے خلاف دہشت گردی کو موثر طور پر روکنے کی کوشش کی جائے ‘ ورنہ سی پیک کے دوسرے مرحلے سے متعلق پاکستان کیلئے کئی چیلنج پیدا ہوسکتے ہیں۔ جو بلوچستان سمیت پاکستان کی مجموعی ترقی کے حوالے سے انتہائی تشویشناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان کے فارن آفس کو ایران سے اپنے سفارتی ذرائع سے اس معاہدے سے متعلق معلومات حاصل کرنی چاہیے تاکہ پاکستان سی پیک سے متعلق اپنے آئندہ پروگرام کو حتمی شکل دیتے ہوئے اس کی فعالت کو ہر طرح سے یقینی بناسکے‘ ایسا کرنا پاکستان کیلئے بہت ضروری ہے‘ کیونکہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں ایرانی صدر کے دورے کے بعد بہتری آئی ہے‘ اوردونوں ملکوں کے درمیان سیاسی ‘ تاریخی اور ثقاقتی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے پر زور دیا گیاہے۔ اگر چاہ بہار پورٹ اور گوادر پورٹ کے ذریعے ہونے والی تجارت سے ان دونوں ملکوں کے مفادات پر کوئی ضرب نہیں پڑتی ہے اور اس خطے کے دیگر ممالک بھی مستفید ہوسکیں گے تو پاکستان کو اس پہ کیا اعتراض ہوسکتاہے۔ لیکن ماضی میں بھارت نے سی پیک پروجیکٹ کوناکام بنانے کیلئے جوکچھ بھی کیاہے۔ اس کو بھولنانہیں چاہیے۔ بلکہ اب زیادہ محتاط ہوکر اس کے سیکنڈ فیز پر تیزی سے کام شروع کر دینا چاہیے اور اپنی سفارت کاری کوبھی زیادہ موثر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
واپس کریں