دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قصور مذہب کا نہیں ہوتا ، مذہبی پیشواؤں کے کردار کا ہوتا ہے
جنید احمد شاہ ایڈووکیٹ
جنید احمد شاہ ایڈووکیٹ
حقوق العباد کا تعلق متاثرین کے نقصان کی تلافی ، ادائیگی ، معافی اور پھر سچے دل سے رجوع الی اللہ کے عمل میں پوشیدہ ہے۔اِس عمل کے بغیر مذہب کا سہارا لینا صرف اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
اِسی تناظر میں قرآن حکیم نے دو ٹوک انداز میں قانون قصاص اور قانون دیت کی تفصیلات کو واضح کیا ہے۔شریعت محمدی میں اسلامی سزاؤں کا تصور بنیادی طور پر حقوق العباد کی عدمِ ادائیگی اور خلاف ورزی کے ساتھ منسلک ہے۔۔۔
یہاں معاملہ صرف حقوق اللہ کا ہوتا تو تب یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ سدھر گیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے اور وہ بروز محشر معاف کر دے ، لیکن یہاں معاملہ حقوق العباد ، سماجی انتشار ، معاشرتی بدنظمی، قتل و غارت گری ، انسانی جان و مال کے ضیاع، خوف اور ڈر کے پھیلاؤ اور عزت و ناموس کے بے آبرو ہونے کا ہے۔۔۔
اسلامی قانون کے تحت یہ مجرم اور قابل گرفت ہے لیکن کوئی ایک عالم شریعت کا یہ بنیادی سا مسئلہ مجرمین پر واضح کر کے یہ اصلاح کرے کہ آج تک جس جس کا ، جتنا جتنا مال اور جس جس شکل میں لُوٹا گیا ہے ، اُسکا واپس لوٹانا اور نقصان کا ازالہ کرنا اسلامی قانون کا بنیادی تقاضہ ہے بلکہ مُلکی قانون کے تحت بھی یہ عمل لازمی و ضروری ہے ۔۔۔
لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ مفاداتی تعلقات بنائے گئے ، دعوتیں اڑائی گئیں، ملاقاتیں کی گئیں ، استقبال کیا گیا اور بالآخر تمام تر جرائم کے ساتھ پورے گینگ کو اپنی مذہبی شناخت تَلے قبول کر لیا گیا ۔۔۔
یورپ میں مذہب کو اس لیے خیر آباد کہہ دیا گیا تھا کہ وہاں کا پادری ظالموں ، غاصبوں اور مجرموں کا ساتھ دیتا تھا ، وہاں کی رعایا نے مذہبی نمائندگان کا مکروہ کردار دیکھ کر مذہب کو ہی خیر آباد کہہ دیا۔۔۔ یورپ کی دہریت کی تاریخ کا یہی خلاصہ ہے۔۔۔
قصور مذہب کا نہیں ہوتا ، مذہبی پیشواؤں کے کردار و عمل کا ہوتا ہے ۔۔ آج ہمارے معاشرے میں مذہب پر تنقید اِنہی لوگوں کے غلط اعمال کو بطورِ دلیل اور بطورِ نمونہ سامنے رکھ کر کی جاتی ہے وگرنہ مذہب تو ہر انسان کی روحانی تکمیل کی بنیادی ضرورت ہے۔۔۔
برعظیم پاک و ہند میں فقہا ، صوفیاء ، علمائے ربانیین ، اولیاء کرام اور دیگر مجددین ، واعظین اور مصلحین نے صدیوں تک انسان دوستی کے کردار کے تناظر میں انسانی قلوب پر محنت کی ہے ، اُنکی باطنی تربیت فرمائی ہے اور دین اسلام کی انسان دوست تعلیمات کے ساتھ جوڑا ہے ، اسی لیے آج اِس خطے میں کروڑوں کلمہ گو بستے ہیں لیکن آج کے مذہبی طبقات کا کردار پیدائشی مسلمان کو بھی دین بیزار اور مذہب بیزار بنا رہا ہے ۔۔
قرآن حکیم نے بالکل واضح اور دو ٹوک انداز میں علماء حق اور علماء سوء کے حقائق کو بیان کیا ہے ۔۔ ہمیں قرآن کریم سے براہِ راست رہنمائی لیکر صحیح علماء دین کو تلاش کرنا چاہیے اور ایک عالم کے روپ میں چھپے ہوئے مفاد پرست اور دنیا پرست طبقات سے اعلان براءت کرنا چاہیے ۔۔۔
الہامی ، دینی ، مذہبی ، اور روحانی تعلیمات ایک انسان کے روحانی تقاضوں کی تکمیل کا مکمل بندوبست کرتی ہیں ۔۔۔ہامانی کردار کو دیکھ کر مذہب پر تنقید نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔ یہ متوازن ، معتدل اور علمی رویہ نہ ہے ۔۔۔
واپس کریں