مذہب کا تڑکہ لگا کر اور اسلامی ٹَچ دے کر قوم کو بیوقوف بنایا جائے
جنید احمد شاہ ایڈووکیٹ
مکہ و مدینہ پہلے سے محفوظ ہیں ، وہاں کوئی بم دھماکہ اور خود کش حملہ نہیں ہوتا ، ایسے مراکز کے ساتھ قلبی و روحانی تعلق صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے مسلمانوں یعنی 2 ارب انسانوں کا ہے
اپنا ملک دہشت گردی ، فرقہ ورایت اور لا قانونیت کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہاں کا سعودی فنڈڈ مذہبی طبقہ یہ گُن گائے جا رہا ہے کہ ہمارے لیے بس یہی بہت اعزاز کی بات ہے کہ ہمیں مقدس مقامات کی حفاظت کی زمہ داری سونپ دی گئی۔ اسلامی شریعت میں ایک انسان کی جان کی حرمت خانہ کعبہ سے بھی زیادہ ہے اور ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ صرف حالیہ سیلابی صورتحال کا ڈیٹا دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے لاکھوں لوگ اِس نظام ظلم کی نااہلی اور نالائقی سے مَر گئے ، بے گھر ہو گئے اور جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔
یہاں کے نظام اور اُسکے درباری مذہبی طبقے کی مذہب کے مفاداتی استعمال کی ایک پوری تاریخ ہے۔۔ اِن لوگوں نے کلمے کے نام پر مُلک بنانے کا خواب دکھا کر لاکھوں لوگوں کی ہجرت کروا کے اُنہیں مروایا ، ایک دور میں تحریکِ نظام مصطفی چلائی اور ایک شیطان صفت آمر کے اقتدار پر قبضہ کرنے اور تیسرے مارشل لاء کی راہ ہموار کی ، اُس آمر نے سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے جتنا مذہب کا غلط استعمال کِیا ، شاید ہی تاریخ پاکستان میں کسی اور نے کِیا ہو لیکن وہ اِن علمائے سؤ کا مرد مومن اور مرد حق بنا رہا۔
آج قومی ریاستوں کا دور ہے ، ہر قوم اپنے مفادات کے تحت معاہدات کرتی ہے چاہے وہ چین ہو ، امریکہ ہو یا اِنکے اتحادی ممالک۔۔آزاد ممالک اپنی آزادانہ مرضی و منشاء سے اپنے قومی مفادات کے تحت فیصلے کر رہے ہیں اور غلام ممالک جن کے غلام ہیں ، وہ اُنکے مفادات کے لیے آلہ کار بن رہے ہیں۔۔۔یہ صدی سیاسی استحکام اور معاشی مضبوطی کی صدی ہے۔ اُمت مسلمہ کے اتحاد کے دلفریب نعرے ، مشترکہ مسلم فوج کا قیام اور مسلمان ممالک کے اتحاد کے خواب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ یہ نعرے صرف اور صرف مسلمان کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہیں۔ اِس طرح کے فورمز ( او-آئی-سی) پہلے سے موجود ہیں اور اُنکا سامراجی کردار دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔
عالمی نقشے پر موجود 56 مسلم ممالک سامراجی کالونیاں ہیں ، غلام ابن غلام ہیں ، غداروں کی ایک پوری نسل اقتدار پر قابض ہے ، اپنی نام نہاد بادشاہت اور جمہوریت بچانے کے چکر میں ہیں۔۔ اِنکے اقدامات کا دین اور مذہب سے کوئی تعلق نہ ہے اور مذہب کو صرف اور صرف مفاداتی سیاست کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔
سیاسی اقدامات کا تجزیہ سیاسی بنیادوں پر ہونا چاہیے نہ کہ وہاں مذہب کا تڑکہ لگا کر اور اسلامی ٹَچ دے کر قوم کو بیوقوف بنایا جائے۔۔۔
واپس کریں