دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مفاداتی سسٹم کی پالیسیوں میں پوری دنیا کو جکڑ رکھا ہے
جنید احمد شاہ ایڈووکیٹ
جنید احمد شاہ ایڈووکیٹ
برطانیہ کی لیبر پارٹی27 فروری 1900 میں بنی ، لفٹ کی سیاست کرتی ہے اور نظریاتی طور پر سوشل ڈیموکریسی پر یقین رکھتی ہے، اِس وقت لندن کا مئیر صادق خان مُسلمان ہے اور لیبر پارٹی کا ہے حتیٰ کے لیبر پارٹی برطانیہ میں برسرِ اقتدار بھی رہی ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔۔۔
اِس وقت لندن سمیت پورے برطانیہ میں تارکینِ وطن پر مُلک بدری کی خطرناک تلوار لٹک رہی ہے ، ابھی چند دن قبل وہاں ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا ، ماضی میں مُسلمانوں اور دیگر اقوام و مذاہب کے خلاف نسل پرستی پر مشتمل انتہائی خطرناک فسادات پھوٹ چکے ہیں اور نسلی تصادم ریکارڈ کا حصہ ہیں۔۔۔
مُلکی و ریاستی نظم و نسق میں طاقت شخصیات کی نہیں بلکہ نظامِ ریاست اور اداروں کے پاس ہوتی ہے ، کوئی صدر ، وزیراعظم یا مئیر تو ایک مینیجر کی حیثیت رکھتا ہے ، اگر وہ بھی ذرا سا وکٹ سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کرے گا تو فوراً اُٹھا کر باہر پھینک دیا جائے گا ، امریکہ کی اپنی سیاسی تاریخ میں ، امریکی صدور کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔۔۔
کوئی ایک شخص نظام سے اکیلے ٹکر نہیں لے سکتا اور اُسی نظام کے تحت انتخابی سیاست کے ذریعے تو بالکل نہیں لے سکتا۔۔ انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے افراد اُس سسٹم کو بدلنے کے لیے نہیں ، بلکہ اُسے چلانے کے لیے آتے ہیں۔۔۔ سسٹم کو بدلنا ایک مکمل سماجی و سائنسی عمل ہے اور اُسکے تقاضے بالکل ہی مختلف ہوتے ہیں۔۔۔
ہم کسی کا مُسلم نام اور مذہبِ اسلام سے تعلق کا سن کر اُمیدیں پال لیتے ہیں کہ یہ بہت بڑی تبدیلی آ گئی ہے حالانکہ ایک غلط سسٹم میں کسی مسلمان کے بجائے ایک ہندو، سکھ ، یہودی ، عیسائی اور یا کسی بھی نظریے اور مذہب کے پیروکار کو بٹھا دیا جائے تو اُس نے اُسی سسٹم کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔۔۔
قیام پاکستان سے لیکر آج تک یہاں نام نہاد مسلمان ہی مسلط ہیں لیکن نظام ریاست برطانیہ کی باقیات پر مشتمل ہے تو نتائج ہمارے سامنے ہیں ، پورا عرب مسلمان ہے لیکن امریکہ کا غلام ہے ، خود امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا کھلاڑی ہے جس نے بلا تفریق رنگ ، نسل اور مذہب کے اپنے مفاداتی سسٹم کی پالیسیوں میں پوری دنیا کو جکڑ رکھا ہے۔۔۔
نیو یارک کے میئر کی امریکہ و برطانیہ کے صدر/ وزیراعظم کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے ، کچھ بھی نہیں۔۔۔ اِسے مستقبل میں امریکہ کا صدر بھی بنا دیا جائے تو یہ پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کی طے شدہ پالیسی سے باہر نکل کر نہیں کھیل سکتا۔۔۔
چھوٹی موٹی اور جزوی اصلاحات اپنے اپنے سیاسی منشور پر عملدرآمد کی مجبوری ہوتی ہے کیونکہ دوبارہ ووٹ مانگنے کے لیے عوام کے پاس بھی تو جانا ہوتا ہے ، باقی یہ ایک الگ موضوع ہے کہ یہاں حکومتیں ووٹ سے بنتی ہیں یا پھر سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری اور اسٹیبلشمنٹ کی مرضی و منشاء سے۔۔۔
واپس کریں