دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نواز شریف کا وژن
طاہر سواتی
طاہر سواتی
یہ آج سے ۳۴ سال قبل کی کہانی ہے جب نواز شریف پہلی بار اقتدار میں آیا ۔ افغانستان سے روس جاچکا تھا اور وسط ایشیا کی ریاستیں آزاد ہو رہی تھیں ۔اس وژنری انسان نے اس وقت ان ریاستوں کے لئے فضائی سروس شروع کرادی ، ان میں سے اکثر ریاستیں اسلام آباد کو کراچی سے نزدیک پڑ رہی تھیں۔ افغان تنظیموں کے درمیان صلح کی کوششیں کیں تاکہ وہاں امن ہو اور وسط ائشائی ریاستوں تک زمینی رابط بحال ہو۔
دوسری جانب بھارت سے دوستی اور لاہور سے اسلام آباد اور پھر اسلام آباد سے جلال آباد تک موٹر ویز کا پلان تھا۔ جو بھارتی مال کو افغانستان اور اس سے آگے وسط ایشائی ریاستوں تک پہچاننے کا واحد ذریعہ بنتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر روزانہ دس ہزار ٹرک بھی سامان لیکر جاتے اور ہم فی ٹرک سو ڈالر راہداری وصول کرتے تو یہ ایک میلین ڈالر روزانہ بنتے ہیں ،
دوسری جانب ان ممالک سے تیل اور گیس کی پائپ لائن لاکر پاکستان کو سستی توانائی مل جاتی ،
موٹر وے صرف ایک سڑک نہیں تھی بلکہ لاہور اسلام آباد موٹر وے کے منصوبے میں دونوں جانب زرعی اور صنعتی زون شامل تھے جس سے مقامی زراعت اور صنعت کو فروغ ملتا۔
لیکن ڈھائی سال کے اندر ہی اس کی حکومت ختم کردی گئی کہ ٹھاکروں کو منظور نہیں تھا۔
ٹھاکرز ہمیشہ قومی سلامتی کے نام پر سیاسی حکومتوں کو بلیک کرتے رہتے ہیں ،
اس بلیک میلینگ کو ختم کرنے کے لئے دوسرے دور حکومت میں ایٹمی دھماکے کرواکر ملکی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنایا ۔ اس وقت کے وقائع نگار گواہ ہیں کہ ایٹمی دھماکوں کی سب سے زیادہ مخالفت ٹھاکروں نے کی کہ وہ اپنی روزی روٹی پر لات مارنے کے حق میں نہیں تھے۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد نوازشریف کا موقف تھا کہ اب ھمیں اتنے بڑے روایتی فوج رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں ایک جدید، مختصر اور متحرک فروس چاہئے جو ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت اور اس کو استعمال کرنے میں ماہر ہو۔
اس دوران بھارت سے دوستی اور مسلئہ کشمیر کے حل کے لئے واجپائی کا تاریخی دورہ ہوا جس میں واجپائی نے پہلی بار کشمیر کو ایک متنازع ایشو تسلیم کیا اور اس کے سیاسی حل پر آمادگی ظاہر کی ۔
قومی سلامتی کے بعد کشمیر قوم کی وہ دوسری دکھتی رگ ہے جن پر ٹھاکروں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے۔
اس دورے کو ناکام بنانے کے لئے ٹھاکروں نے پہلے جماعت اسلامی کو اور پھر کارگل میں جوانوں کو اتارا ۔
یوں نواز شریف کا وہ خواب پھر چکنا چور ہوا ۔
پھر آتی ہے اس کی تیسری دور حکومت جس میں کہانی ڈکٹیٹر مشرف کے لوڈشیڈنگ کی اندھیروں اور دھشت گردی کے بارود میں ڈوبے پاکستان سے شروع ہوتی ہے اور پھر سی پیک ، بجلی کے کارخانوں سے ہوتی ہوئی ۳۱۴ بلین ڈالرز کی جی ڈی پی تک جاتی ہے ۔
لیکن ٹھاکروں کی روش وہی ہے ۔
ففتھ جنریشن وار شروع ہوتی ہے، جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ عمران نیازی کو میدان میں اتارا جاتا ہے، پھر تبدیلی کا سال آتا ہے ، نیا پاکستان بنتا ہے اور بات کارخانوں سے لنگر خانوں ، سی پیک سے کٹا اور مرغی انڈا پیک تک آتی ہے ۔
اور نتیجہ ایک بدحال پاکستان کی صورت میں سامنے آتا۔
نواز شریف سے تو نہ ہوسکا۔
اب شہباز شریف کوشش کرکے دیکھ لیں ۔
مجھے تو ٹھاکروں کے ہوتے ہوئے روشنی کا کوئی سراغ نظر نہیں آرہا۔
واپس کریں