دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایرانی صدر کی حادثاتی موت، چند حقائق
طاہر سواتی
طاہر سواتی
ابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے،پانچ برس کی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا۔جہاں پر وہ اماُم خمینی کے تحریک سے متاثر ہوئے اور شاہ ایران کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ انقلاب کے بعد انھوں نے عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور ۲۵ سال کی عمر میں ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے ۔ 1988 میں وہ جج کی حثیت سے ،ڈیتھ کمیٹی‘ نامی خفیہ ٹربیونلز کا حصہ بنے جس نے بائیں بازو کے سیاسی مخالفین کے خلاف سیاسی بنیادوں پر کیسز بنائے اور تقریباً پانچ ہزار مردوں اور عورتوں کو پھانسیاں دیں جنکو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا جو انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
ابراہیم رئیسی 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل اور دو سال بعد چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کردئیے گئے ۔ کیونکہ وہ ایران کے موجودہ مذہبی لیڈر خامنائی کے قریبی اور بااعتماد شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں منصف اعلی بننے کا پیمانہ کیا ہے۔
۲۰۲۱ میں وہ صدر منتخب ہو گئے ۔ اس کے دور صدارت میں مہسا امینی نامی خاتون مذہبی پولیس کے حراست کے دوران تشدد سے ہلاک ہوئی جس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے۔
صدر ابراہیمی نے پرامن جدوجہد کرنے والوں کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال کیا ۔
اقوام متحدہ کے مطابق 551 مظاہرین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے جن کی اکثریت گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئی۔
20 ہزار مظاہرین کو حراست میں لیا گیا اور نو نوجوانوں کو موت کی سزا دی گئی۔اس کا دور انسانی حقوق کی پامالی کے لحاظ سے ایک سیاہ ترین دور شمار کیا جاتا ہے۔
حادثہ چند حقائق۔
ریئیسی اس دن آزرباہیجان کے سرحد کے قریب دو ڈیموں کا افتتاح کرکے واپس آرہے تھے جب ان کا ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا ۔ ایرانی ریاست ۱۳ گھنٹوں تک اپنی تمام تر ٹیکنالوجی بروئے کار لانے کے طیارے کا سراغ لگانے میں ناکام رہا۔ اس دوران ایران کا ریاستی کنٹرول میڈیا ابہام پھیلاتا رہا۔
یورپی یونین ، ترکی اور روس سے مدد کی درخواست کی گئی ۔ ترکی نے اپنا خصوصی ڈورن روانہ کیا جس نے دو گھنٹوں کے اندر ہیٹ سنسنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے جائے حادثے کے نشان دہی کی ۔
یاد رہے ترکی ڈرون ٹیکنالوجی نیٹو کی برکت سے پروان چڑھی ہے۔ جس کو ہمارے ابتسام الٰہی جیسے مولوی جوتے کے نوک پر رکھتے ہیں ۔
امریکہ کا سب سے بڑا دشمن ابراہیم رئیسی جس ہیلی کاپٹر میں سفر کررہا تھا وہ بھی امریکہ کا بنا ہوا تھا۔
۷۰ کے دہائی میں بنائے گئے یہ ہیلی کاپٹر شاہ ایران کے دور میں ایران کو دئیے گئے تھے۔
“مرگ بہ امریکہ “ کے نعرے لگاکر قوم کو مذہبی زومبیز بنانے والوں کی حقیقت یہ ہے کہ ان کا صدر تک امریکہ کے پچاس سالہ پرانے ہیلی کاپٹر میں سفر کرنے پر مجبور ہے۔ باقی بڑھکیں سنتے جاؤ خون لہو گرماتے رہو۔
ایک آخری بات ترکی میں ڈرون ٹیکنالوجی صدر اردگان کے داماد کے کنٹرول میں ہے جس سے وہ خوب پیسہ کما رہا ہے۔ پاکستان میں اگر زرداری یا نوازشریف کے بچوں نے اس قسم کے ریاستی ٹیکنالوجی کا کنٹریکٹ لے لیا تو سب سے پہلے جماعت اسلامی والے سڑکوں پر ہوں گے۔ وہ جماعت اسلامی جو اردگان کو خلیفہ وقت کا درجہ دیتی ہے۔
واپس کریں