دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہم خارجہ محاذ پر کہاں کھڑے ہیں؟
احتشام الحق شامی
احتشام الحق شامی
قریبی ہمسایہ ممالک افغانستان،بھارت اور ایران سے ہمارے کشیدہ یا خراب تعلقات کی بنیادی وجہ دہشت گردی ہے،جس کا ہم خود برسوں سے شکار ہیں اور اسی دہشت گردی کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں شہری لقمہِ اجل بن چکے ہیں۔آپ دنیا کے کسی بھی خطے میں چلے جائیں،پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو پناہ دینے یا انہیں پالنے کی بات سنیں گے۔اچھے یا برے طا ل ب ا ن یا پھر ہمارے”اثاثے“۔۔۔جس باعث ملک ایک عرصہ سے دنیا میں غیر پسنددیگی کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

ریاست کی آشیر آباد سے ان کی پرورش اور پھر ان کی کھلی سرگرمیوں کے خلاف سے پہلے بے نظیر بھٹو اور پھر نواز شریف نے جب بھی اقدامت اٹھانے کی کوشش کی ڈیپ اسٹیٹ کی جانب سے سخت ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔”ڈان لیکس“ کیا تھا یہی کہ اپنا گھر درست کرو،جس پر نواز شریف کو غدار قرار دے کر ان کے خلاف آسمان جتنا بڑا طوفان کھڑا کر دیا گیا۔

بحرحال ایران کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی کھلی خلاف ورزی کرنے کے بعد پاک ایران سفارتی رابطے کرنا اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل نہیں،یہ معطل رابطے بھی جلد بحال ہو جائیں گے لیکن اصل مسئلہ اپنی جگہ موجود رہے گایعنی دہشت گردوں کے اصل ماسٹرز اور حمائتیوں کی موجودگی اور ان کی سرپرستی کیونکی ریاستی مشینری میں موجود دہشت گردوں،اچھے یا برے طا ل ب ا ن کے سہولت کار جن کی مدد کے بغیر ان مسلح جھتوں یا دہشت گرد گروپس کی کاروائیاں ممکن ہی نہیں۔

ہمارا کسی نے کچھ نہیں بگاڑا،ہم نے ہمیشہ اپنی پریشانیوں اور مصائب کی وجوہات خود پیدا کی ہیں جن کی شروعات سابق آمر ایوب خان اور پھر ضیاء الحق کے دورِ آمریت سے ہوتی ہوئی پرویز مشرف کے دور آمریت تک پہنچی اور اس کے بعد ملکی مصائب اور پریشانیوں میں مذید اضافہ جنرل باجوہ نے عمرانی تجربہ کر کے کیا۔ہم نے74 برسوں میں اگر کچھ ٹھیک سیکھا ہوتا تو آج مہذب دنیا ہمارے ملک میں ایرانی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہوتی،ماسوائے چین کے،جس کی بنیادی وجہ پاکستان اور بلخصوص بلوچستان(گوادر) میں چین کی بھاری سرمایہ کاری ہے جسے چین کسی قیمت پر ضائع نہیں کرنا چاہتا اس لیئے چین کی جانب سے ایرانی حملے کی مذمت بنتی ہے۔ہم خارجہ محاذ پر کہاں کھڑے ہیں؟ آج پھر پتا چلا ہے۔
واپس کریں