دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نیا بھارتی تجارتی راہداری منصوبہ،ہم کہاں کھڑے ہیں؟
احتشام الحق شامی
احتشام الحق شامی
بھارت، امریکہ اور مشرق وسطی کو جوڑنے والا نیا تجارتی راہداری منصوبہ ’بھارت،مشرق وسطی، یورپ اکنامک کوریڈور‘ اس پراجیکٹ کا مقصد انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کو ریل اور بندرگاہوں کے نیٹ ورک کے ذریعے جوڑنا ہے۔اس منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ میں واقع ممالک کو ریل نیٹ ورک کے ذریعے جوڑا جائے گا جس کے بعد وہ سمندری راستے سے بھارت سے منسلک ہوں گے۔ اس کے بعد اس نیٹ ورک کو یورپ سے جوڑا جائے گا۔اب اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مذکورہ منصوبے کی کامیابی کی صورت میں بھارت میں معاشی خوشحالی اور اقتصادی ترقی کا کتنا بڑا دروازہ کھلے گا اور ہم گجرات کا قصائی کے نعرے لگاتے رہ گئے۔
ہم نے بھی”سی پیک“ کی صورت میں معاشی ترقی، خوشحالی اور روزگار کے خواب دیکھے تھے لیکن عالمی اشٹبلشمنٹ نے لوکل اشٹبلشمنٹ کے زریعے عمران خان کو اس ملک پر مسلط کر کے سی پیک کی کامیابی کے خواب چکنا چور کر دیئے۔بھارتی تجارتی راہداری منصوبے کے اعلان کے بعد ہمیں یہ اس خوش فہمی سے باہر نکل آنا چاہیئے کہ خطہ میں ہماری کوئی بہت بڑی اہمیت ہے یا ہماری جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ ہمارے بغیر یہاں عالمی نظام نہیں چل سکتا۔مذکورہ بھارتی منصوبے سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ ہمسایوں سے انگل بازی کا نتیجہ بل آخر یہی نکلتا ہے کہ ترقی کی دوڑ کے اس زمانے میں ہمسایہ ممالک ایک وقت میں آ کر آپ سے لاتعلقی اختیار کرنے لگتے ہیں جس کے بعد باقی دنیا بھی آپ سے فاصلے اختیار کرنے لگتی ہے اور تن تنہا کوئیں کے مینڈک بن کر رہ جاتے ہیں۔
ہمارے صوبے بلوچستان اور سابق فاٹا ہمارے قابو میں نہیں، مذکورہ علاقوں سے اگر آج سیکورٹی فورسز نکل جائیں تو وہاں پاکستان سے لاتعلقی اختیار کر کے اپنی علیحدہ ریاست کا اعلان کر نے میں دیر نہیں کریں گے دوسری جانب ساری سیاسی قیادت کو آپ نے چور اور کرپٹ مشہور کیا ہوا ہے، الیکشن آپ کے لیئے ایک بڑا طوفان بنا ہوا ہے کہ کہیں عمران خان نہ جیت جائے اور پھر جیتنے کا بعد آپ کو اصلی پھینٹا نہ لگا دے۔(خاکسار کو عمران خان سے ہمدردی نہیں لیکن حقائق یہی ہیں) ملک کنگلا دیش بن چکا ہے،عوام بجلی کے بل جلا رہے ہیں اور ملک سفارتی طور پر تنہاء کھڑا ہے اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہا ہے اور ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے گویا پاکستان اب شجرِ ممنوعہ بن چکا ہے۔
بات نئے بھارتی تجارتی منصوبے سے شروع ہوئی تھی،جسے امریکہ اور پورپ کی مکمل آشیر حاصل ہے کے بعد اب ہم کہاں کھڑے ہیں؟لے دے کر ایک ہمسایہ چین رہ گیا ہے جبکہ اس کی نظر میں بھی ہم مکمل طور پر غیر اعتماد اور نا قابلِ بھروسہ ہو چکے ہیں اور ودسری جانب افغانستان جو چین اور بھارت کی سرمایہ کاری کے بعد ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ جب تک ہماری اشٹبلشمنٹ امریکہ کی نوکری نہیں چھوڑے گی، ملک میں سیاسی اور جمہوری نظام کے حوالے سے پک اینڈ چوز کی پالیسی کا خاتمہ اور سیاسی نظام اشٹبلشمنٹ کے چنگل سے آذاد نہیں ہو گا ہماری گاڑی آگے جانے کے بجائے ریورس گیئر میں چلتی رہے گی جیسے کہ اس وقت بھی پیچھے کی جانب تیزی کے ساتھ جا رہی ہے اور اس کے بعد گہری کھائی ہے جہاں سے نکلنا ممکن نہیں ہو گا۔
واپس کریں