خالد خان
اس وقت دنیا کی کل آبادی آٹھ ارب چودہ کروڑ سے زیادہ ہے،اس میں مرد تقریباًچار ارب دس کروڑ ہیں جبکہ خواتین کی تعداد چار ارب چار کروڑ ہے۔امریکہ کی کل آبادی33,99,91,196 ہے،اس میں 167844628 مرداورخواتین کی تعداد 172146574ہے، بھارت کی کل آبادی1,44,30,05,766 ہے،اس میں مرد745062997 جبکہ خواتین کی تعداد697943820 ہے،پاکستان کی کل آبادی 23,75,34,325 ہے اس میں مرد12096168 جبکہ خواتین کی تعداد116838170 ہے۔فی صد کے لحاظ سے دیکھا جائے تودنیا میں مرد50.5فی صد اور عورتیں 49.5فی صد ہیں،امریکہ میں مرد49.4فی صد اور خواتین50.6فی صد ہیں۔ انڈیا میں مرد51.6فیصد اور خواتین48.4فی صد ہیں۔پاکستان میں مرد50.8فی صد اور خواتین49.2فی صد ہیں۔ان اعداد و شمار سے عیاں ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں اور دنیا کے مختلف ممالک امریکہ، بھارت اور پاکستان وغیرہ میں آبادی کے لحاظ خواتین نصف ہیں۔تاریخ عالم میں خواتین کا اہم کردار ہے۔حضرت خدیجہ ؓ بہترین تاجر تھیں، فاطمہ جناح ڈاکٹر اور سیاستدان تھیں۔
علاوہ ازیں پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو،بھارت کی خاتون وزیراعظم اندرا گاندھی، فن لینڈ کی وزیراعظم سانا مارین،نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا ایرڈن، نیوزی لینڈ کی گورنرجنرل پیستی ریڈی،بیلجیم کی وزیراعظم صوفی ولمیس،جرمنی کی چانسلر اینلا مرکل، بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد، بنگلہ دیش کی وزیراعظم خالدہ ضیاء، بولیویا کی صدر جانیں آنیر،استونیا کی صدر کیرسٹی کالجلیڈ،ایتھوپیا کی خاتون صدرسہالے ورک زیوڈے،ناروے کی خاتون وزیراعظم ایرینا سولبرگ، نیپال کی خاتون صدر بدیا دیوی بھنڈاری، سنگار پور کی خاتون صدر حلیمہ یعقوب، تائیوان کی صدرتسائی انگ ون،سلواکیہ کی خاتون صدرزوزانے کیپتوا،آئس لینڈ کی وزیراعظم کیٹرن جیکوبوسڈوٹی،ڈنمارک کی خاتون وزیراعظم میٹ فریڈرکسن، کینڈا کی خاتون گورنر جنرل جوئی پائتے،پودا پاکستان کی سماجی ورکر ثمینہ نذیر اور تانگھ وسیب کی روبینہ فیروز بھٹی، سابق گورنر اسٹیٹ بنک اور موجودہ نگران وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر سمیت بے شمار خواتین جنہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں اور دے رہی ہیں۔ہمارے ملک میں جب سکینڈری،انٹرمیڈیٹ وغیرہ لیول کے رزلٹ آتے ہیں تو ان میں ٹاپ پوزیشن ہولڈرز لڑکیاں اور خواتین ہوتی ہیں،اسی طرح یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعداد مرد وں سے زیادہ ہوتی ہے لیکن جب سی ایس ایس اوردیگر مقابلہ جات کے رزلٹ آتے ہیں یا بیوروکریسی دیکھتے ہیں تو آپ کو خواتین آٹے میں نمک کے برابر بھی نظر نہیں آتی ہیں حالانکہ خواتین مردوں سے بہتر کام کرتی ہیں اور ان کا رزلٹ بہترین ہوتا ہے۔
آپ کو لاہور کی ڈپٹی کمشنر محترمہ رافیہ حیدر کام کرتی ہوئی نظر آئیں گی جبکہ لاہور کے کمشنر محترم محمد علی رندھاواکرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آئیں گے۔سیاست کو دیکھیں تو محترمہ مریم نواز بہادری کے ساتھ جیل گئیں، اپنے والد میاں نواز شریف کی عدم موجودگی میں عقل مندی اور ہوشیاری سے سیاست کے میدان میں کھیلیں جبکہ بعض حضرات سیاست دان جیل جانے سے خوف زدہ تھے۔سابق وفاقی وزیر مریم اورنگ زیب نے سیاسی جماعت کی ترجمان کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا، جب ان کی جماعت حسب اختلاف میں تھی تو وہ ایک شیرنی کی طرح دلیری سے بولتی تھیں۔
محترمہ سمیرا ملک ایک بہترین سیاست دان ہیں،وہ نواب آف کالاباغ مغربی پاکستان کے سابق گورنر ملک امیر محمد خان کی پوتی ہیں،حالانکہ ان کے خاندان میں خواتین کا سخت پردہ ہوتا ہے،خواتین کے پورشن میں مرد نہیں جاتے ہیں لیکن جب محترمہ سمیراملک نے سیاست میں قدم رکھا تو کامیاب سیاست دان ثابت ہوئیں۔ سابق وفاقی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بہترین انداز سے ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کی نمائندگی کی۔ سابق وفاقی وزیر شیر ی رحمان کو دیکھیں،سیاست اور سفارت کاری کمال کی کرتی ہیں۔ گو کہ خواتین اعلی کارکردگی دکھاتی ہیں لیکن خواتین کو آگے آنے نہیں دیا جاتا ہے، یہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ امریکہ، بھارت، برطانیہ، فرانس سمیت ہر ممالک میں خواتین کے ساتھ تعصبانہ رویہ اپنا یاجاتاہے، امریکہ میں کتنی سینیٹرز خواتین ہیں؟کتنی سیکرٹریز وغیرہ خواتین ہیں؟ کتنی خواتین ججز ہیں؟ امریکہ میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے لیکن ہر شعبے میں خواتین مردوں سے کم ہیں۔اسی طرح بھارت میں کتنی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ خواتین ہیں، اسمبلیوں میں کتنی خواتین ہیں؟، کتنی خواتین وزیر ہیں؟آپ کوہر شعبے میں خواتین کم نظر آئیں گی۔
اسی طرح برطانیہ سمیت دیگر ممالک دیکھیں، خواتین کی تعداد مردوں کے برابر ہے لیکن ملازمت،بزنس، بیوروکریسی، انتظامیہ،سیاست سمیت ہر شعبے میں خواتین کی تعداد کم ہوتی ہے۔سیاسی پارٹیاں خواتین کو بہت کم پارٹی ٹکٹس دیتی ہیں۔سیاسی پارٹیاں خواتین سے ووٹ لیتی ہیں لیکن وہ خواتین کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیتی ہیں۔یہ خواتین کے ساتھ سراسر بے انصافی اور زیادتی ہے۔ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اب سب پر واضح کریں کہ " ساڈا حق ایتھے رکھ" کی پالیسی اپنائیں۔ جو سیاسی پارٹیاں کم ازکم پچاس فی صد پارٹی ٹکٹس خواتین کو نہ دیں تو خواتین ایسی سیاسی پارٹیوں کو بالکل ووٹ ہی نہ دیں،جب خواتین ایسا کریں گی تو ان کو بھی دن میں تارے نظر آئیں گے۔مشرف دور سے خواتین کو مخصوص ٹکٹوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے لیکن اس صورت میں خواتین مردوں کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کو پارٹی ٹکٹس دیں تاکہ خواتین براہ راست الیکشن لڑیں۔ پاکستان اور دیگر متعدد ممالک میں بعض خواتین پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑتی ہیں اور جیت جاتی ہیں۔خواتین الیکشن مہم مردوں سے بہتر چلاسکتی ہیں،اب یہ بہانے اور تفریق کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔میں ایک بار پھر واضح کرتا ہوں کہ دنیا بھر میں سیاسی پارٹیوں کو نصف پارٹی ٹکٹس خواتین کو دینی چاہییں،یہ خواتین کا بنیادی حق ہے۔ کابینہ میں نصف تعداد خواتین کی ہونی چاہیے۔معزز خواتین کو اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنی چاہیے اور اس کیلئے جدوجہد کو بھی کرنی چاہیے۔قارئین کرام!خواتین کو تعصب کی بھینٹ چڑھانا ظلم ہے۔کسی انسان کو جنس کی بنیاد پرکسی عہدے یا حق سے محروم رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟
اب الیکشن کے لئے پارٹی ٹکٹس جاری ہونگے تو پھر دیکھ لیں کہ وہ کتنے فی صد پارٹی ٹکٹ خواتین کو دیتے ہیں؟اب خواتین قطعی زیادتی، ظلم اور بے انصافی برداشت نہیں کریں گی۔
واپس کریں