خالد خان
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ کانفرنس بھارتی ساحلی اور سیاحتی شہر گوا میں منعقد ہوا۔ گوا بھارت کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کے مغرب میں بحیرہ عرب، شمال اور مشرق میں مہارا شٹر اور جنوب میں ریاست کرناٹک واقع ہے۔گوا جنوبی اور شمالی دو اضلاع پر مشتمل ہے۔1510ء میں پرتگالی مصالحہ جات، عیسایت کی تبلیغ اور دیگر مقاصد کیلئے گوا آئے تھے،وہ گوا کے ساحل سمندر اور جنگلات سے بہت متاثر ہوئے جس کی وجہ سے انھوں نے یہاں پر مستقل ڈھیرے لگائے۔ پرتگالی19دسمبر1961ء تک گوا میں رہے، یہاں کی عمارتوں میں پرتگالی جھلک نظر آتی ہے اور یہاں پرتگالی ڈشزبھی میسر ہوتی ہیں۔گوا کے باشندے کام کے ساتھ ساتھ آرام کو لازمی سمجھتے ہیں۔گوا میں دوپہر ایک بجے سے شام پانچ بجے تک کھانے،آرام اور دھوپ سے بچنے کیلئے وقفہ کرتے ہیں اور سب دکانیں بند کرتے ہیں۔ دوپہر کے اس وقفے کو سو سیکاڈ کہتے ہیں اور اس وقت شہر میں خاموشی ہوتی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) وزرائے خارجہ کانفرنس کی میزبانی کا شرف "گوا" کو حاصل ہوا۔اس کانفرنس میں پاکستانی وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے شرکت کی۔حکومت پاکستان کا یہ بہت اچھا فیصلہ ہے کہ بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی۔1947ء سے قبل برصغیر پاک وہند میں مختلف چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں جو بعد میں ہندواکثریت والی ریاستیں بھارت جبکہ مسلمان اکثریت والی ریاستیں پاکستان میں شامل ہوگئیں لیکن کشمیر سمیت بعض ریاستوں کے معاملات متنازعہ رہے۔ پاکستان بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ کشمیر ہے لیکن اس مسئلے کو ابھی تک حل نہیں کیا گیا جس کے باعث دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات کشیدہ رہے اور متعدد بار جنگیں اور جھڑپیں کیں،اس حالات کے باعث دونوں ممالک کا ناقابل تلافی نقصان ہوا، حالانکہ مسئلہ کشمیر کا آسان اور سادہ حل موجود ہے کہ دونوں ممالک غیر جانبدارذرائع کے نگرانی میں کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیں۔ اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل نہیں کرسکا کیونکہ اقوام متحدہ کے بعض بااختیار ممبران کا مسئلہ کشمیر کے حل میں دلچسپی نہیں ہے، اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے زیر نگرانی مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے۔مسئلہ کشمیر کا حل دونوں پڑوسی ممالک کے مفاد میں ہے۔عصر حاضر میں روس اور چین دنیا کے لئے بہت اہم اور مثبت کردار ادا کررہے ہیں۔ دونوں ممالک تجارت،ترقی اور خوشحالی کیلئے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل حل ہونے سے ترقی اور خوشحالی کے نئے ابواب کھل جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی اس خطے میں ترقی اور خوشحالی کیلئے خواہاں ہے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف (مرحوم) دور میں آگرہ میں مذکرات ہوئے تھے اور اس میں دونوں ممالک کی طرف سے 100فی صد مسائل کے حل کیلئے کوششیں ہوئیں تھیں لیکن کچھ بیرونی طاقتوں نے مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دیے۔پاکستان اور بھارت کو بیرونی عناصر کی مداخلت کی بجائے آپس میں مسائل حل کرنے چاہییں کیونکہ بیرونی طاقتیں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات چاہتی ہیں اور اپنے مفادات کو دیکھتی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان اور بھارت آپس میں بہترین، خوشگوار اور دوستانہ تعلقات قائم کریں۔بھارت 5 اگست 2019ء کے اقدام کو واپس لے اور مسئلہ کشمیر پر مثبت مذاکرات کریں، مسئلہ کشمیر کا بہترین حل کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیں اورکشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔روس اور چین اس خطہ بلکہ دنیا کیلئے مثالی کردار ادا کررہے ہیں لہذا وہ ان ممالک کے لئے بھی کردار ادا کریں۔ پاکستان اور بھارتی لوگ پڑوسی ممالک کے درمیان بہترین اور خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں۔سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کہا تھا کہ "ہر پاکستانی میں تھوڑا سا انڈیا اور ہر انڈین میں تھوڑا سا پاکستان ہوتا ہے۔" اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے لوگ1947ء سے قبل اکٹھے رہتے تھے۔ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے خوشی و غمی میں شریک ہوتے تھے۔اب بھی پاکستان اور انڈیا کے لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔کوئی بھارتی پاکستان آتا ہے تو اس کا پاکستانی میزبان پھولے نہیں سماتا،اسی طرح کوئی پاکستانی بھارت جاتا ہے تو بھارتی میزبان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔دونوں ممالک کے لوگ آپس میں پیار اور محبت کرتے ہیں۔لہذا پاکستان اور بھارت اغیار کو خوش کرنے کیلئے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کامزید نقصان بند کریں۔اپنے تمام مسائل اور معاملات ٹیبل ٹاک کے ذریعے حل کریں۔ٹیبل ٹاک میں فریب اور چالاکی کی بجائے اخلاص کے عنصر کو شامل کیا جائے۔پاکستان اور بھارت کی سب سے بڑی ہوشیاری یہی ہوگی کہ اپنے مسائل حل کریں، تجارت اور کھیلوں کے مقابلے شروع کریں، عوام کے لئے ویزہ پالیسی آسان ترین کریں، بنگلہ دیش سے براستہ بھارت،پاکستان اور افغانستان روس تک سی پیک پراچیکٹس پر کام کریں،اس میں چین، ایران، ترکی، سعودی عرب اور دیگر ممالک شامل کیے جائیں۔پاکستان اور بھارت کے باعث دنیا سے غربت، افلاس اوربے روزگاری ختم ہوجائے گی۔ اس سے پوری دنیا کے انسانوں کا فائدہ ہوگا۔انسانیت کے لئے سوچنا چاہیے اور انسانوں میں کوئی تفریق نہیں کرنی چاہیے۔بہتر انسان وہی ہے جو انسانیت کا احترام کرتا ہے، انسانوں کیلئے بہتر سوچتا ہے اور انسانوں کی بھلائی کیلئے کام کرتا ہے۔ بعض مالیاتی تنظیمیں اپنی پالیسیوں اور ایجنٹوں کے ذریعے بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرانے کیلئے دباؤ بڑھاتے ہیں،اس سے بیروزگاری، مہنگائی اورغربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی مالیاتی تنظیمیں انسانیت کا نقصان کررہی ہیں۔روس، چین، بھارت،پاکستان،ایران، افغانستان، ترکی، سعودی عرب اور دیگر ممالک سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کریں تاکہ دنیا سے مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور افلاس ختم ہوجائے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی تین اور چار جولائی کو نئی دہلی میں گروپ کے رہنماؤں کا سربراہی اجلاس ہوگا۔پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو بہتر رویہ اپنانا چاہیے، غیر ضروری اور متنازعہ بیانات سے پرہیز کرنا چاہیے۔دونوں پڑوسیوں کو خلیج کم کرنے،قریب آنے اور تعلقات بہتر کرنے کیلئے سعی کرنی چاہیے۔ایس سی او کے اس سربراہی ا جلاس میں شرکت کیلئے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف شرکت کیلئے نئی دہلی جائیں گے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف مثبت سوچ کے مالک ہیں، وہ اس خطے میں امن، شانتی اور تجارت چاہتے ہیں۔ اسی طرح وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نوجوان اور متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں، وہ معاملات کو سلجھانے میں مہارت رکھتے ہیں،وہ ٹیبل ٹاک کو ترجیج دیتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کا نکتہ نظر بہتر ین اور خوبصورت انداز سے پیش کیا۔
واپس کریں