دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سمسٹر سسٹم۔ کالم نگار۔خالد خان
خالد خان
خالد خان
ؑ اسلام فطری مذہب ہے اورپاکستان اسلام کے نام پر معرض وجودمیں آیا۔اسلام کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے لیکن وطن عزیز پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں کیا گیا۔اسلام نے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔قرآن مجید فرقان حمید کے نزول میں "اقراء" پڑھ یعنی تعلیم کی ہدایت ہے لیکن وطن عزیز پاکستان میں عملی طور پر زمینی حقائق کے مطابق تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی،اس لئے وطن عزیز پاکستان کا سنجیدہ طبقہ بہت زیادہ پریشان ہے۔محترم سعید احمد سینئر ہیڈماسٹر (ر)گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول رحیم یار خان نے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف حافظ سید عاصم منیر، چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور ممبر کونسل برائے فلاحی بہبود ترقی کو ایک تحریری درخواست ارسال کی ہے، ان کے گذارشات آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں " پاکستان کی شرح خواندگی دیگر ترقی یافتہ ممالک اور چند ایک اسلامی ممالک سے کافی کم تھی۔اس شرح کو بڑھانے کیلئے ارباب اقتدار اور ماہرین تعلیم نے کئی تجاویز پیش کیں،جن میں ایک تجویز ہائیر ایجوکیشن میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح سمسٹر سسٹم کا اجراء کیا جائے، اس تجویز کو منظور کرتے ہوئے ملک کی تمام یونیورسٹیوں اور بڑے بڑے کالجز میں سمسٹر سسٹم کا اجراء کردیا گیا۔ سمسٹر سسٹم میں بچے / بچیاں کو اساتذہ کے حوالے کردیا گیا اور اساتذہ کو نمبر لگانے/فیل پاس کرنے /گریڈ دینے کا اختیار دے دیا گیا۔ چونکہ معاشرے میں اسلامی اقدار کا فقدان ہے،دشمن عناصر اور بعض ممالک نہیں چاہتے ہیں کہ پاکستان میں نظام اسلام کا رواج ہو جس میں وہ کامیاب ہوں۔ اساتذہ کرام قابل احترام ہیں لیکن بعض کالجز یا یونیورسٹی میں پڑھانے والے اساتذہ /پروفیسر بہک گئے اور بیرونی عناصر کے آلہ کار بننے لگے،اس کا نتیجہ بھیانک برآمد ہوا۔ (1) اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں چو کچھ ہوا،وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی باتیں نہ رہیں، اخبارات، ایکڑانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر زبان عام ہوئیں،چند ظالموں، بد بختوں اور کم ظرفوں کے باعث پورے معاشرے میں بچیاں اور اساتذہ بدنام ہوئے،کئی سیاسی لیڈروں کے نام آئے۔(2) ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی میں بھی شور شرابا ہوا۔ (3)راولپنڈی اور دیگر شہروں کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ذکریا یونیورسٹی وغیرہ میں یہی کہانیاں شروع ہوگئیں۔
جناب والا!بچیاں معصوم مگر بھیڑیوں اور درندہ صفت پروفیسرو ں کے نرغے میں آگئیں اور میرٹ بڑھانے کے چکر میں اساتذہ کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئیں۔ماں باپ شرمندہ ہوئے۔ معاشرہ میں جگ ہنسائی ہوئی مگر جس کی لاٹھی،اس کی بھینس کے مطابق ارباب اقتدار نے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر پابندی لگادی اور نتیجہ تن چار سو خاموشی چھاگئی۔
جناب والا!آپ سے گذارش ہے کہ تحقیقاتی اداروں کے ذریعے تحقیقات کروائیں، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ بدمعاشی/بے راہ روی ابھی تک جاری و ساری ہے۔حالات کا تقاضا ہے کہ سمسٹر سسٹم کو فی الفور ختم کیا جائے،ایسا امتحانی سسٹم رائج کیا جائے جس سے طلباء و طالبات بلیک میل نہ ہوسکیں۔ طائرانہ جائزہ لینے سے عیاں ہوجائے گا کہ۔1۔میٹرک کا نتیجہ70فی صد سے 80فی صد ہوتا ہے، 20فیصد ناکام۔2۔انٹرمیڈیٹ کا نتیجہ50فی صد سے60فیصد، 40فیصد ناکام۔3۔گریجوایشن کا نتیجہ30فی صد سے40فی صد ہوتا ہے، 60فیصد ناکام۔ جبکہ سمسٹر سسٹم میں نتیجہ100فیصد ہوتا ہے،اس کی چند ایک وجوہات درج بالا ہیں۔ علاوہ ازیں سمسٹرسسٹم کے خاتمے سے بچے /بچیوں میں محنت کا جذبہ پیدا ہوگا۔اساتذہ کا احترام بحال ہوگا، بدمعاشی ختم ہوگی۔ جناب والا! گذشتہ پانچ سالوں سے زائد عرصہ ہوا، مختلف محکموں میں سرکاری سطح پر تقرریاں بند ہیں، بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ جہاں ملازمتوں کے لئے درخواستیں مانگی جاتی ہیں، وہاں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں درخواستیں جمع ہوجاتی ہیں۔ہر کام میرٹ اور صاف وشفاف سسٹم کے ذریعے کیے جائیں اور نوجوانوں کیلئے روزگار کے دروازے کھول دئیے جائیں تو یہ مسائل بھی کم ہوجائیں گے۔
جناب والا! آپ سے استدعا ہے کہ سمسٹر سسٹم ختم ہونے سے بچے /بچیوں کی عصمتیں لٹنا بند ہوجائے گی۔معیار تعلیم بڑھانے سے طلباء /طالبات اپنی پڑھائی کی طرف متوجہ ہونگے اور اس طرح میرٹ میں اضافہ ہوگا۔ جب تقرریاں ہونگی تو میرٹ پر بھرتیاں ہونگی۔سمسٹر سسٹم کو ختم کرکے امتحانی سسٹم کو بحال کیاجائے۔اس سے مزید والدین اور طلباء و طالبات کی پریشانیاں ختم ہونے میں مدد ملے گی، اسلامی اقدار پرعمل پیرا ہوکر ہم اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔" قارئین کرام!یہ محترم سعید احمد سینئر ہیڈماسٹر (ر)گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول رحیم یار خان کی گذارشات تھیں جو انھوں نے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف حافظ سید عاصم منیر، چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور ممبر کونسل برائے فلاحی بہبود ترقی کو ایک تحریری درخواست میں کیں۔وطن عزیز پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم درست نہیں ہے۔بھارت چاند پر پہنچ گیا اور ہر شعبے میں ترقی کررہا ہے جبکہ ہم ہر شعبے میں کہاں پر کھڑے ہیں؟ترقی یافتہ ممالک نے تعلیم اور انصاف کے باعث ترقی کی ہے جبکہ وطن عزیز پاکستان تعلیم اور انصاف میں کس پوزیشن پر ہے؟وقت کا تقاضا ہے کہ تعلیم اور انصاف کے سسٹم پر توجہ دینی چاہیے اور اس میں انقلابی تبدیلی لانی چاہیے۔ اساتذہ اور طلبہ کیلئے عملی اخلاقی تعلیم بھی ناگزیر ہے۔ ایسا نظام ہوکہ اساتذہ اور طلبہ باعمل اور اچھے شہری ہوں۔ رٹوں کی بجائے عملی تعلیم کا نافذ ضروری ہے تاکہ نوجوان ڈگریوں کے حصول کے بعد بے روزگار نہ ہوں۔
ڈگری کے حصول کے بعد نوجوان بے روزگار ہو ں تو پھر ایسی تعلیم پر ضرور سوالات اٹھائیں گے۔سمسٹر سسٹم کو ختم کرکے صاف و شفاف امتحانی نظام لانا چاہیے۔اساتذہ کرام درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیں جبکہ امتحانات تھرڈ پارٹی کے ذریعے لینے چاہییں۔ امتحانات کے لئے نیوٹرل یعنی ریٹائرڈ ٹیچرز، افواج پاکستان کے ریٹائرڈ ملازمین اور این جی اوز کی خدمات حاصل کرنی چاہییں۔ وطن عزیز پاکستان میں صاف و شفاف امتحانات کے انعقاد سے میرٹ ممکن ہوجائے گا اور صاف شفاف امتحانات صرف اور صرف نیوٹرل سسٹم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔قوی امید ہے کہ سعید احمد سینئر ہیڈماسٹر (ر)گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول رحیم یار خان کی گذارشات پر وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف حافظ سید عاصم منیر، چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور ممبر کونسل برائے فلاحی بہبود ترقی ضرور غور کریں گے اور وطن عزیز پاکستان میں تعلیم کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائیں گے۔
واپس کریں