خالد خان
زیرو پوائنٹ کے قریب پاکستان کا گاؤں پڈھانہ ہے اور اس کے بالکل سامنے انڈیا کا گاؤں نوشہرہ ڈھالہ ہے۔ گاؤں پڈھانہ میں ایک قدیم حویلی سردارجوالا سنگھ سندھو ہے۔ یہ حویلی پاکستان بھارت سرحد سے صرف آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اورخستہ حالی کے باوجود تاریخی عمارت متاثرکن نقوش کی حامل ہے۔حویلی کا اندورنی حصہ مغلیہ طرزِ تعمیر کی یادتازہ کرتا ہے اوریہ حویلی شاہانہ طرز پر بنائی گئی تھی، اس میں کم وبیش ایک سو کمرے تھے۔یہ حویلی مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سردار جوالا سنگھ سندھو کو تعمیر کروا کے دی تھی۔سردارجوالا سنگھ سندھو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ہم زلف تھے اور انکی فوج میں اہم کمانڈر تھے۔
سردارجوالا سنگھ سندھو مجسٹریٹ بھی رہے،اس حویلی کے قریب جیل اور عدالت بھی تھی۔ سردا رجوالا سنگھ سندھو کے چوتھی نسل میں سردار چرن سنگھ سندھو نے1942 ء میں اسلام قبول کیا اور اپنا نام سردار نصر اللہ سندھو رکھا۔اب یہ حویلی ان کے خاندان کی ملکیت ہے۔یہ حویلی آٹھ کنال رقبے پر مشتمل ہے، یہ خاص قسم کی نانک شاہی اینٹ سے بنی ہے، ان اینٹوں میں چونا، چاول، دال مونگ، دال ماش کا آٹا استعمال ہوا ہے۔یہ حویلی تین منزلوں اور ایک تہہ خانے پر مشتمل تھی، تہہ خانے میں بارہ کمرے تھے۔تہہ خانے میں ایک سرنگ جو شالیمار باغ لاہور اورامرتسر میں گولڈن ٹمپل تک پھیلی ہے۔یہ سرنگ 20فٹ چوڑی تھی اور اس میں ہردس فٹ کے فاصلے پر روشنی کے لئے قندیلیں تھیں۔اس سرنگ کے چار بڑے مقاصد تھے، (الف) اس سرنگ کا سب سے اہم مقصد دفاعی تھا، ناخوشگوار صورت حا ل میں اس راستے کو محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ (ب)پیغام رسانی کیلئے یہ اہم راستہ تھا۔(ج)حویلی کے مکین اس سرنگ کے ذریعے امرتسرمیں گولڈن ٹمپل اور لاہور میں شالیمار باغ جایا کرتے تھے۔(د) خواتین کھیتوں اور دیگرا مور کے لئے اسی راستے کو استعمال کرتی تھیں۔گاؤں پڈھانہ سے امرتسر تقریباً14کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ پڈھانہ سے شالیمار باغ لاہور کا فاصلہ تقریباً تیس کلومیٹر ہے۔ امرتسر اور لاہور کے درمیان میں واقع پڈھانہ میں ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔پاک بھارت جنگ 1965ء میں بھارتی گولوں کا رخ "حویلی جوالا سنگھ سندھو "کی طرف تھا،جس سے حویلی کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔بھارتی فوجی اس حویلی کے دروازے اور کھڑکیاں اکھاڑ کر انڈیا لے گئے۔
اب اس حویلی کی حالت انتہائی شکستہ ہوچکی ہے۔ خاکسار پڈھانہ کے ذوالفقارعلی کے ہمراہ حویلی سردار جوالا سنگھ سندھو پہنچے تو دروازہ بند تھا۔ ذوالفقار علی نے دروازے پر دستک دی اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیا تو اندر سے مویشیوں کے لئے متعین ملازم نے کہا کہ جیب خرچ دوگے تو پھر دروازہ کھولتا ہوں،مجھے یہ بات زیادہ عجیب نہیں لگی کیونکہ ہمارے ملک میں سرکاری دفاتر میں جیب خرچ، مٹھائی یا کمیشن لینا عام سی بات بن چکی ہے۔ہم جیسے ہی حویلی میں داخل ہوئے تو مویشیوں کا ملازم باربار پیسوں کا اسرار کرنے لگا،تو خاکسار نے تھوڑے سے پیسے دیے،جس پر وہ راضی نہیں تھا، ذوالفقار علی صاحب نے اس کو بمشکل راضی کیا، بحرحال اس سٹیپ کے بعد ہم حویلی کو دیکھنے لگے، جہاں اس حویلی میں عام انسانوں کا داخلہ ممکن نہیں تھا،وہاں آج مویشی باندھے ہیں۔تھوڑی دیر میں سردار سعد اللہ سندھو تشریف لے آئے، عصر حاضر میں "حویلی جوالا سنگھ سندھو" ان کے خاندان کی ملکیت ہے۔سردار سعد اللہ سندھوجوان اور ملنسار ہیں، خندہ پیشانی سے ملے، حویلی کے بارے میں بھی اختصار سے بتایا۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت کے تعاون سے اس تاریخی حویلی کو دوبارہ مرمت کیا جائے تو یہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کیلئے اہم سپاٹ بن سکتا ہے جس سے مقامی لوگوں کے لئے بزنس کے نئے ابواب کھل سکتے ہیں اور غیر ملکی سیاح آنے سے زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔اس کالم کے وساطت سے حکومت پاکستان، اقوام متحدہ اور دیگرسماجی تنظیموں سے استدعاہے کہ حویلی سردارجوالا سنگھ سندھو کی مرمت کروائیں کیونکہ یہ تاریخ کا اہم حصہ ہے اور اس اہم تاریخی عمارت کومحفوظ بنائیں۔ جب سردارجوالا سنگھ سندھو وفات پاگئے تھے تومہاراجہ رنجیت سنگھ اسی حویلی میں آئے تھے اور ایک رات بھی بسر کی تھی۔حویلی سردارجوالا سنگھ سندھودیکھنے کے بعد ہم باہرآئے اور اسی گاؤں پڈھانہ کے بالکل سامنے بھارتی گاؤں نوشہرہ ڈھالہ ہے۔ان پڑوسی دیہاتوں کے لوگ سرحد کے دونوں اطراف میں کھیتوں میں محو تھے۔ میں یہ دیکھ کر جہاں خوش ہوا،وہاں اداس بھی ہوا۔ان پڑوسی دیہاتوں کے افراد کو قریب قریب کام کرتے دیکھا تو خوشی ہوئی لیکن یہ عجیب پڑوسی ہیں کہ ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں جانہیں سکتے ہیں، یہ آپس میں تجارت اور لین دین نہیں کرسکتے ہیں۔یہ عالم دیکھ کر انسان دوست افراد کوافسردگی ضرور ہوتی ہے۔ بلاشبہ سیاسی اورمذہبی پنڈتوں نے انسانوں کے درمیان خلیج پیدا کیا ہے۔
انسان پیدائشی طور پرکسی سے نفرت نہیں کرتا ہے بلکہ ان کو نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے ورنہ انسان کی فطرت میں تو محبت کرنا ہے۔میں پاکستان اور بھارت کے ارباب اختیار سے التجا کرتا ہوں کہ دونوں ممالک نے دشمنی سے پایا کچھ نہیں لیکن کھویا بہت کچھ ہے، اس لیے اب دشمنی چھوڑدیں اوردوستی کریں، کدورتیں اور نفرتیں ختم کریں، امن و شانتی سے رہیں،آپس میں تجارت کریں،کھیلوں کا انعقاد کریں،لوگوں کے درمیان دیوار گرائیں۔ اچھے کردار کے مالک لوگوں کو آنے اور جانے دیں۔مجھے یقین ہے کہ پاکستان اور بھارت دشمنی ختم کریں گے تو محض چند سالوں میں ترقی کریں گے۔کہنے کو بھارت معاشی طاقت بن رہا ہے لیکن حقیقت میں معاش طاقت اور ترقی وہی ہوتی ہے جس سے عام لوگوں کی زیست میں خوشگوار تبدیلی آجائے۔پاکستان اوربھارت میں حقیقی ترقی اور خوشحالی تب آئے گی،جب دونوں ممالک میں استوار تعلقات قائم ہونگے اور اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں گے۔
پڈھانہ اور نوشہرہ ڈھالہ کی طرح بہت سے پڑوسی دیہات ہونگے، جن کے افراد آپس میں گل مل اور گپ شپ نہیں کرسکتے ہیں۔سدا حالات ایک جیسے نہیں رہتے، حالات بدلتے رہتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے لوگوں کے حالات اور خیالات بدل جائیں گے،میں انسانیت کا احترام کرتا ہوں، میں انسانوں میں فاصلے اور دوریاں دیکھ نہیں سکتا، میں انسانوں کے درمیان دیوار یں نہیں دیکھنا چاہتا۔یہ لوگ ہمیشہ زندہ نہیں رہیں گے۔آئیے مل کر انسانوں کوآپس میں ملانے کی سعی کریں، انسانوں کے درمیان دیوار نہیں بلکہ پل کا کردار ادا کریں، اپنی حکومتوں، اپنے سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں سے بھی یہی التجا کریں۔اب میری یہی تمنا ہے کہ اگلی بار پڈھانہ سے آگے نوشہرہ ڈھالہ اور دیگر دیہاتوں کو دیکھ سکوں۔
واپس کریں