دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یہ کیسی جمہوریت۔۔۔؟
خالد خان
خالد خان
حضرت انسان کے ہزاروں برس کے تجربات کا نچوڑجمہوریت ہے۔جمہوریت ہی سب سے بہترین نظام حکومت اورسیاست ہے۔ جمہوریت میں عوام کی حکومت ہوتی ہے۔عوامی نمائندے ہی عوام اور ملک کے فلاح وبہبود کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں لیکن شومئی قسمت وطن عزیز میں نام تو جمہوریت کا استعمال ہورہا ہے بلکہ عملاً اور نتائج کے لحاظ سے کچھ اور ہورہا ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں عوام کے لئے شادمانی نام کی چیز نہیں، صرف الم ہی الم ہے۔وطن عزیز میں دھیرے دھیرے شا نتی بھی ناپید ہورہی ہے۔ حکمرانوں کے لئے سب کچھ دستیاب اور مفت ہے جبکہ عوام کے لئے موت کے سوا ہر چیز مہنگی اور بعید ہے۔
وطن عزیز میں جمہوریت کا یہ بھی المیہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت نہیں ہے بلکہ سیاسی پارٹیاں خاندانوں اور شخصیات کے گرد طواف کرتی ہیں۔حکومت چلی جاتی ہے تو اُس سیاسی پارٹی کے قائدین پر کرپشن سمیت تمام الزامات لگ جاتے ہیں اور پھر چند سالوں کے بعد وہی قائدین پاک وصاف اور حاجی بن جاتے ہیں۔وطن عزیز میں سزا وجزا اور انصاف کا حقیقی نظام ہوتا تو ضرورپوچھ گچھ ہوتی کہ الزام لگانے والے غلط ہیں یا یہ جو حاجی صاحب بن گئے، یہ غلط ہیں۔کوئی تو غلط ہوگا، اگر دونوں درست ہیں توپھر یوں کہہ سکتے ہیں کہ غریب عوام اور ملک کے ساتھ کھلواڑ جارہی ہے۔ وطن عزیز میں 70فی صد عوام خطہ غربت سے نیچے زیست بسر کررہے ہیں، ان میں سے ایم این اے، ایم پی اے یا سینیٹرز وغیرہ نہیں بنتے ہیں،نہ ان میں سے بیوروکریٹ بنتے ہیں، جب ان میں کوئی بھی فیصلہ سازی یا نظام حکومت یا انتظامیہ میں شامل نہیں ہوتا ہے،تو صاف ظاہر ہے کہ اکثریت کا فیصلہ سازی یا انتظامیہ وغیرہ میں کوئی کردار نہیں ہے تو پھر یہ کیسی جمہوریت ہے؟
جموریت میں اکثریت کی حکومت ہوتی ہے لیکن یہاں ہمیشہ صرف دو فی صد افراد اور مخصوص خاندانوں کی حکومت ہوتی ہے۔
وطن عزیز میں پی آئی اے، سٹیل ملز وغیرہ خسارے پر جارہے ہیں جبکہ چند افراد کے بزنس میں چند سالوں میں سینکڑوں فی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔ وطن عزیز میں اکثریت کے لئے بجلی، گیس اور دیگر توانائی کے ذرائع مہنگے ترین ہیں لیکن مخصوص افراد کے لئے یہ سب بالکل مفت ہیں۔یہ کیسی جمہوریت ہے؟ وطن عزیز میں کسی سرکاری دفتر میں چھوٹے سے کام کیلئے چلے جائیں تو پھر آپ پر بہت کچھ عیاں ہوجائے گا۔
کسی دانشور نے کہا تھا کہ" ایسا علم بیکار ہے جو انسان کو کام کرنا تو سکھا دے لیکن زندگی گزاررنے کا سلیقہ نہ سکھائے۔"ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جو انسان سے خوشیاں سمیٹ لے اور صرف غم اور الم دے۔ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جو جھوٹ پر قائم ہو۔ایسی جمہوریت کاکیا فائدہ جس میں عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات پر من وعن عمل ہورہا ہو، اہم عہدوں پر ایسے افراد جلوہ افروز ہوں جو عوام کا لہو چوستے ہوں۔
"اس درد کی دنیا سے گذر کیوں نہیں جاتے
یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
ہے کون زمانے میں میر ا پوچھنے والا؟
نادان ہیں جو کہتے ہیں کہ گھر کیوں نہیں جاتے
شعلے ہیں تو کیوں ان کو بھڑ کتے نہیں دیکھا؟
ہیں خاک تو راہوں میں، بکھر کیوں نہیں جاتے
آنسو بھی ہیں آنکھوں میں دعائیں بھی ہیں لب پر
بگڑ ے ہوئے حالات، سنور کیوں نہیں جاتے"
کارل مارکس نے کہا تھا کہ "انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں لیکن ایسا وہ اپنی مرضی سے نہیں کرتے۔وہ جن حالات میں یہ کرتے ہیں، وہ انہوں نے خود منتخب نہیں کیے ہوتے بلکہ ماضی سے وراثت میں ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ماضی کی تمام نسلوں کی روایات زندہ انسانوں کے ذہنوں میں ایک ڈراؤنے خواب کی طرح بسی ہوتی ہیں اور جب وہ خود اور حالات میں انقلابی تبدیلی لاتے ہیں اور کچھ نیا تخلیق کرتے ہیں جو ماضی میں نہیں ہوا ہوتا، یہی وہ انقلابی کیفیت کے حالات ہوتے ہیں۔ جب وہ ماضی کی طاقتوں کو بروئے کار لاتے ہیں اور ماضی کے نام، نغمے اور لباس نئے انداز میں زندہ کرتے ہیں تاکہ عالمی تاریخ کو تبدیل کرنے کے لئے بر سر پیکار ہوسکیں۔" ولادیمیر لینن نے کہا تھا کہ"سرمایہ دارانہ جمہوریت ایک دھوکہ اور فریب ہے۔ اس میں صرف دولت مند افراد ہی حصہ لے سکتے ہیں جبکہ محنت کش طبقے کی وسیع اکثریت کے لئے صرف ووٹ دینے کا حق ہے۔ولادیمیر لینن نے ایک اور جگہ کہا تھا کہ"اگر ہم عام سوچ اور تاریخ کا مذاق نہیں اڑا رہے تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ہمیں طبقات کی موجودگی میں "خالص جمہوریت"کا کہیں بھی نام ونشان نہیں ملے گا،ہاں البتہ ہم طبقاتی جمہوریت کی بات ضرور کرسکتے ہیں۔"خالص جمہوریت " محنت کشوں کو بے وقوف بنانے کے لئے کسی لبرل کا کاذب اور مکارانہ فقرہ ہے۔ بلاشبہ سرمایہ دارانہ جمہوریت قرون وسطیٰ کے مقابلے میں ایک جدید تصور ہے مگر یہ سرمایہ داری کے زیر اثر ہمیشہ محدود،اپاہج، تنگ نظر، جھوٹی اور منافقانہ ہے۔ گو یہ امیروں کے لئے جنت سے کم نہیں ہے مگر یہ محروموں اور غریبوں کے لئے ایک پھندہ، ایک لعنت اور ایک دھوکہ ہے۔ " حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ بنے توآپ کی تنخواہ کا سوال پیش ہوا۔ "آپ ؓ نے فرمایا کہ مدینہ میں ایک مزدور کو جو یومیہ اجرت دی جاتی ہے، اتنی ہی میرے لیے مقرر کریں۔ ایک صحابی بولے کہ اس میں آپ ؓ کا گذارہ کیسے ہوگا؟حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ میرا گذارہ اسی طرح ہوگا جس طرح ایک مزدور کا ہوتا ہے۔ ہاں، اگر میرا گذارہ نہ ہوا تو میں مزودر کی اجرت بڑھا دوں گا۔"
قارئین کرام! وہ جمہوریت ہی سب سے بہترین ہے جس میں فیصلے عوام کے ہوں، ملکی وسائل عوام کے ہوں، ملکی وسائل پر کنٹرول عوام کا ہواورعوام کے لئے شانتی ہو۔ اس کے برعکس ہمیں ایسی جمہوریت قطعی پسند اور منظورنہیں جس میں عوام کے لئے الم ہو اور حکمرانوں کے لیے عیاشی ہو۔ قرضے حکمران عیاشی یا سستی شہرت کے لئے لیں جبکہ وہی قرضے عوام اتاریں۔یہ کیسی جمہوریت ہے؟
واپس کریں