خالد خان
دنیا کے متعدد ممالک میں بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے اور اس عفریت سے پاکستان بھی محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہے، یہ قدرتی وسائل اور معدنی دولت سے مالامال ہے،پاکستان کے لوگ ذہین، محنتی اور جفاکش ہیں لیکن اس کے باوجود بے روزگاری میں اضافہ افسوسناک ہے۔وطن عزیز پاکستان میں بے روزگاری کے متعدد وجوہات ہیں۔(الف)گو کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا لیکن وطن عزیز پاکستان میں انصاف نام کی ناچیز ناپید ہے۔اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ (1)وطن عزیز پاکستان میں کی پوسٹوں (Key Posts) پر میرٹ پر بھرتی نہیں ہوتی۔ جب نالائق اور نااہل افراد بھرتی ہونگے تو وہ قطعی انصاف فراہم نہیں کریں گے اور وہ کام میرٹ پر نہیں کریں گے۔ (2)پاکستان میں عدلیہ کا نظام ایسا ہے جس میں انصاف کے حصول کے لئے قارون کا خزانہ اور نوح کی عمر کی ضرورت ہے، عدالتوں میں بروقت فیصلے نہیں ہوتے ہیں۔
اگر فوری انصاف ملتا تو وطن عزیز پاکستان میں نہ صرف جرائم کم ہوتے بلکہ جوانوں کو میرٹ پر ملازمتیں مل جاتیں۔(ب) پاکستان میں تعلیمی لحاظ سے بھی تفاوت پایا جاتا ہے۔ایک ملک لیکن متعدد تعلیمی نظام ہیں، سرکاری تعلیم، پرائیویٹ تعلیم، اے او لیول تعلیم، مدرسوں کی تعلیم، ان سب میں بہت زیادہ فرق ہے،یہ سب تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر توجہ نہیں دیتے،یہ زبانیں سکھاتے ہیں لیکن ہنر نہیں سکھاتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں طلبہ ڈگریوں کے حصول کے بعد بے روزگار ہوتے ہیں،طلبہ ڈگریاں لیے دربدر پھیرتے رہتے ہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی ہے اور زیادہ تر تعلیمی ادارے بغیر سربراہ کے چل رہے ہیں،حکومت اداروں کے سربراہو ں اور اساتذہ کو میرٹ پر بھرتی نہیں کرتے ہیں۔اساتذہ اور دیگر ملازمین سیاست میں ملوث ہوتے ہیں، سرکاری افسران اور ملازمین سرکاری ملازمین کم اور سیاست دان زیادہ ہوتے ہیں، وہ اداروں کی ترقی میں دلچسپی کم لیتے ہیں لیکن سیاستدانوں کے ڈیروں کا طواف زیادہ کرتے ہیں، ایسی صورت میں ادارے ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہوجاتے ہیں،جس کے باعث ادارے ملازمین کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔وطن عزیز پاکستان میں سیاسی بھرتیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں جس سے اداروں پر بہت زیادہ بوجھ بڑھ جاتا ہے،اداروں کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں، جب آمدن کم ہواور اخراجات زیادہ ہوں تو ایسی صورت میں ادارے زیادہ عرصہ نہیں چل سکتے ہیں، کراچی سٹیل مل اور پی آئی اے وغیرہ ان کی مثالیں ہیں۔سرکاری اداروں میں افسران اور ملازمین وقت سے پہلے بالکل حاضر نہیں ہوتے ہیں بلکہ افسران اور ملازمین وقت پر بھی نہیں پہنچتے ہیں۔
افسران دفتر مرضی سے جاتے ہیں، جب دفتر پہنچ جاتے ہیں تو کام نہیں کرتے ہیں، ان کے بارے میں پوچھا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ وہ میٹنگ میں مصروف ہیں۔ دیگر ملازمین چائے پینے یا موبائل فون پر محو گفتگو ہوتے ہیں،اس لئے سرکاری ادارے ترقی نہیں کرتے ہیں، جب ادارے ترقی نہیں کریں گے تونئی آسامیاں پیدا نہیں ہونگی اور بے وزگاری میں اضافہ ہوگا۔ (ج)وطن عزیز پاکستان میں کرپشن میں بہت تیز ی سے اضافہ ہورہا ہے جوکہ انتہائی پریشان کن بات ہے۔
ہمارے ملک میں صرف وہ افراد کرپشن نہیں کرتے ہیں جن کو کرپشن کا موقع نہیں ملتا ہے۔کرپشن سے ملک اور اداروں کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔جن ممالک میں کرپشن کم ہوتی ہے،وہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں، جن ممالک میں کرپشن زیادہ ہو،وہ ممالک اور اس کے ادارے تنزیلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔جن ممالک میں کرپشن زیادہ ہو تی ہے، ان ممالک میں بے روزگاری بھی زیادہ ہوتی ہے۔ (د)بڑھتی ہوئی آبادی بھی روزگارپر اثراندازہوتی ہیں۔زیادہ ترممالک میں ایک یا دو بچے کے حصول پر عمل در آمد کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں ایک ہی شخص کے دس سے پندرہ بچے ہوتے ہیں۔ہمارے ملک کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے جوبے روزگاری کا موجب بن رہی ہے۔ آبادی کم ہوگی تو روزگار آسانی سے مل جاتا ہے،جب آبادی زیادہ ہوگی تو روزگار کی تلاش میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور بے روزگاری زیادہ ہوتی ہے۔(ر)وطن عزیز پاکستان میں منصوبہ بندی جیسی چیزیں کتابوں اور کاغذات پر مل سکتی ہیں لیکن عملاً منصوبہ بندی نام کی چیز یں کم نظر آتی ہیں۔
حکومت کے پاس بے روزگاری کے درست اعداد وشمار بھی نہیں ہوتے ہیں، جب صحیح اعداد وشمار ہی نہ ہو تو منصوبہ بندی کیسی ہوگی؟ وطن عزیز پاکستان میں دس یازیادہ سالوں کے بعد خانہ شماری اور مردم شماری کی جاتی ہے لیکن اس پر بہت زیادہ سوالات اٹھتے ہیں۔ جب کسی ملک کی آبادی اور دیگر اشیاء و وسائل کے بارے میں معلومات درست نہ ہوں تو پھر اس کیلئے اعداد وشمار کی ہیر پھیر ہوسکتی ہے لیکن ٹھیک منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی ہے لہذا ہمارے ملک میں بیروزگاری کی ایک اہم وجہ ناقص منصوبہ بندی یا پلاننگ کا نہ ہونا بھی ہے۔ (س) زیادہ تر ممالک میں زمینوں کو عموماً دو مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے،(1)زمینوں کو زراعت کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، زرعی اجناس پیدا کیے جاتے ہیں۔ ملک زرعی اجناس کے لحاظ سے خود کفیل ہوجاتاہے اور ان اجناس کو ملکی ضرورت سے زیادہ ہونے کی صورت میں برآمد کیا جاتا ہے اور قیمتی زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ (2)زمینوں پر صنعتیں لگائی جاتی ہیں،پروڈکٹس پیدا کیے جاتے ہیں جو ملکی ضرورت پوری کرتے ہیں اور ملکی کی ضرورت سے زیادہ ہونے کی صورت میں برآمد بھی کیا جاتا ہے اوربرآمدات کے باعث ملک کے زرمبادلہ میں اضافہ ہوتا ہے۔زمینوں کو زراعت یا صنعتوں دونوں صورتوں میں استعمال پر ان کے کم ازکم تین بڑے فائدے ہوتے ہیں۔(1)ملکی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں۔ (2)برآمدات کی صورت میں قیمتی زرمبادلہ کمایاجاتا ہے۔ (3)روزگارکے ذرائع پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن وطن عزیز پاکستان میں زراعت اور صنعتوں کی بجائے زمینوں کو پراپرٹی کے بزنس کی نذر کررہے ہیں جس سے زرعی زمین کم ہورہی ہے تو ظاہر ہے کہ زرعی اجناس کم پیدا ہورہے ہیں اور زرعی اجناس درآمد کرنے پڑتے ہیں جس سے قیمتی زرمبادلہ صرف کرنا پڑتا ہے۔
زمینوں پر صنعتیں بھی نہیں لگا رہے ہیں تو ملک کی ضروریات کیلئے پروڈکس بھی در آمدکررہے ہیں،اس پر زرمبادلہ خرچ کررہے ہیں، فیکٹریاں کم ہونگی تو روزگار بھی کم ہی ہوگا۔لہذا" پراپرٹی بزنس" زرمبادلہ کی کمی، ملکی معیشت کی خرابی اور بے روزگاری کا بہت اہم سبب ہے۔(ش)پٹرولیم مصنوعات، بجلی سمیت توانائی کے دیگر ذرائع میں ظالمانہ اضافوں اور بہت زیادہ ٹیکسز کے باعث تین بہت بڑے نقصانات ہیں۔(1)توانائی کے ذرائع میں اضافوں اور زیادہ ٹیکسز کی وجہ سے صنعت کار صنعت بند کرنے اور سرمایہ دوسرے ممالک منتقل کرنے پر مجبور ہیں۔اس سے جہاں سے ملک میں سرمایہ اور زرمبادلہ میں کمی ہورہی ہے، وہاں بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔(2) جس ملک میں توانائی کے ذرائع کے قیمتیں زیادہ ہوں اور ٹیکسز بھی ناقابل برداشت ہوں، ایسے ملک میں سرمایہ کار رخ نہیں کرتے ہیں، جب سرمایہ نہیں آئے گا تو روزگار کے نئے ذرائع پیدا نہیں ہونگے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ (3)توانائی کے ذرائع میں اضافوں اور زیادہ ٹیکسز کے باعث کسان سخت پریشان ہوتے ہیں اور وہ زرعی اجناس پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے ہیں۔
ان اثرات کے باعث بیروزگاری میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن حکومتیں آئی ایم ایف اور ان کے ایجنٹوں کے باعث توانائی کے ذرائع کی قیمتوں اور ٹیکسوں کے اضافوں میں مگن ہوتی ہیں۔ (ص) حکمرانوں کا اپنے ملک کی بجائے دوسرے ممالک میں سرمایہ ہونے کے باعث وہ ملک میں سرمایہ کاروں کے لئے خوشگوار ماحول پیدا نہیں کرتے ہیں اور اس سے روزگار کے ذرائع پیدا نہیں ہورہے ہیں۔ (ض)وطن عزیز پاکستان میں جس کی تنخواہ لاکھوں میں ہوتی ہے، اس کو مفت پٹرول، بجلی، گاڑی، گھر اور دیگر مراعات دیتے ہیں، اس پر سالانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ان رقوم کو روزگار کے نئے وسائل پیدا کرنے پر خرچ کیے جاتے تو اس کے ثمرات دوررس ہوتے۔ مفت پٹرول، بجلی، گاڑی، گھر اور دیگر مراعات وغیرہ بھی بے روزگاری کا اہم سبب ہے۔پاکستان میں درج بالا نقائص اور کوتاہیوں کو دور کرکے بے روزگاری کو کم اور ختم کیا جاسکتا ہے۔
واپس کریں