محمد ریاض ایڈووکیٹ
پاکستان کا آئین عدلیہ کو ممتاز اور منفرد حیثیت فراہم کرتا ہے ۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 2-A اور آرٹیکل 175(3) عدلیہ کی آزادی اور اسے ایگزیکٹو سےالگ رکھنے کا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ آئین پاکستان عدلیہ خصوصا سپریم کورٹ کو ریاست کے تین ستونوں یعنی مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ کے درمیان ہم آہنگی اور توازن برقرار رکھنے کی منفرد ذمہ داری تفویض کرتا ہے۔ آئین کے محافظ کے طور پر، آئین عدلیہ سے اس بنیادی دستاویز کے تحفظ اور دفاع کا متقاضی بھی ہے۔ عدلیہ کے معزز ججز عہدہ براجمان ہونے سے پہلے یہ حلف اُٹھاتے ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی حفاظت اور اسکا دفاع کریں گے۔عدلیہ کی آزادی کے ساتھ ساتھ آئین عدلیہ کے اندر خوداحتسابی کے طریقہ کار کو بھی وضح کرتا ہے۔ سپریم کور ٹ اور ہائیکورٹس کے ججز کے احتساب کے لئے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل قائم کی گئی ہے۔ یہ کونسل پانچ اراکین چیف جسٹس آف پاکستان کے علاوہ سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز اور ہائیکورٹس کے دو سینئر ترین چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل ہوتی ہے۔ صدر کی جانب سے موصول ہونے والے ریفرنس پر یا ازخود کارروائی کے ذریعے کونسل اس معاملے کی تحقیقات کرتی ہےکہ آیا جج جسمانی یا ذہنی معذوری کی وجہ سے فرائض منصبی کو صحیح طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہوچکا ہے یا پھر کس مس کنڈکٹ کا شکار تو نہیں ہوا۔ تحقیقات کے بعد کونسل رپورٹ صدر پاکستان کو پیش کرتی ہے ۔ کونسل کی رپورٹ کے مطابق اگر جج مس کنڈکٹ یا فرائض منصبی سرانجام دینے سے قاصر ہوچکا ہو تو صدر اس جج کو عہدے سے ہٹا سکتا ہے۔ پاکستان میں احتساب کی بات کی جائے تو سب سے آسان ہدف صرف سیاستدان ہی رہے ہیں۔ سیاستدانوں پر اُنگلی اُٹھانے کے ساتھ ساتھ انکو چوک چوراہوں، میڈیا اور کٹہرے میں کھڑاکرنا بہت ہی آسان ہے ۔
پاکستان میں منتخب عوامی نمائندوں اور سیاستدانوں کے علاوہ پاکستان کے کسی محکمہ کے اعلی ترین عہدیدران کے خلاف احتسابی عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کس حد تک اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوسکی یا نہیں اس بات کا اندازہ صرف ماضی قریب میں ہونے والی کونسل کی کاروائیوں ہی سے لگایا جاسکتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل پر دیگر محکموں کی کارکردگی کی طرح سوالیہ نشان اُٹھائے جاسکتے ہیں۔ ہاں، اگر چند طاقتور شخصیات کی آنکھوں میں کھٹکنے والے جج کو منظر عام سے ہٹانا مقصود ہو تو کونسل چند گھنٹوں کی کاروائی کے بعد آئین و قانون کی سربلندی پر یقین رکھنے والے جسٹس شوکت صدیقی جیسے جج کو عہدے سے ہٹانے کی رپورٹ صدر پاکستان کو جاری کرتی ضرور دیکھائی دیتی ہے۔ جب موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو منظر عام پر ہٹانے کی نوبت آئی تب بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی پُھرتیاں قابل دید تھیں۔
یاد رہے جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد دھرنا میں طاقتور حلقوں کی پرواہ کئے بغیر آئین و قانون کی سربلندی کو قائم رکھنے کے لئے دبنگ عدالتی فیصلے جاری کئے تھے۔ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا دوسرا بڑا جرم راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم نواز شریف اور انکے خاندان کے خلاف اس وقت کی طاقتور ترین شخصیات اور عدلیہ میں موجود اعلی ترین عہدیدران کے باہمی گٹھ جوڑ اور سازش کو سرعام بے نقاب کرنا تھا۔ لیکن جب آپ کسی کی آنکھوں کی تارے ہوں اور آپکے خلاف مس کنڈکٹ اور بد عنوانی کی شکایات کے انبار ہی کیوں نہ لگے ہوں، سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز اور سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران ججز بھی چیف جسٹس و کونسل کے دیگر ممبران کو خط لکھ کر کونسل کے اجلاس کے لئے درخواستیں کریں مگر آپ کا چیف جسٹس ان درخواستوں کی موجودگی کے باوجود بھی معزز جج صاحب کو اپنے ساتھ بینچ میں بٹھا کرعلی اعلان خاموش پیغام دینے کی باتیں کرے تو پھر عدلیہ میں خوداحتسابی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوپائے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 27 اکتوبر 2023 کوبلایا ۔
یاد رہے اس سے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل کا آخری اجلاس جولائی 2021 کو ہوا تھا، جب جسٹس گلزار احمد پاکستان کے چیف جسٹس تھے، اور اس کے بعد سے مزید شکایات موصول ہوتی رہیں۔مگر ہمارے معزز چیف جسٹس صاحبان کو اپنے ادارے کے احتساب کی بجائے سیاسی معاملات کی زیادہ فکر لاحق تھی۔ بہرحال دیر آئد درست آئد۔سوا دو سال کے بعد ہونے والے کونسل کے پہلے اجلاس میں 29شکایات کا جائزہ لیا گیا اور کونسل نے 19شکایات کو خارج کردیا گیا اور بقیہ کی 10شکایات بشمول پاکستان بار کونسل کی جانب سے درج شکایت جوجسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف تھیں ان پر2کے مقابلہ میں 3کے اکثریتی رائے سے معزز جج کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ جبکہ اقلیتی ارکان نے کہا کہ انہیں معزز جج کے خلاف شکایات پر غور کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
معزز جج سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کونسل کی غیر جانبدارانہ کاروائی کے بعد اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ الزامات غلط ثابت ہونے پر معزز جج کو کلین چٹ ملنی چاہیے اور جھوٹی شکایات درج کروانے والے افراد پر بھاری بھر جرمانے عائد کرنے چاہیے۔بصورت دیگر خود احتسابی کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ کونسل کے اجلاس میں یہ معاملہ بھی زیر غور لایا گیا کہ چونکہ کونسل ایک الگ آئینی ادارہ ہے۔ اس کے لیے ایک کل وقتی سیکریٹری اور مطلوبہ عملہ کے ساتھ ایک علیحدہ سیکریٹریٹ تشکیل دینا مناسب ہوگا۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار، جو کونسل کے سیکرٹری کے طور پر کام کر تے ہیں، اس سلسلے میں ایک ورکنگ پیپر چیف جسٹس آف پاکستان و دیگر ممبران کو پیش کریں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر سرپرستی سپریم جوڈیشل کونسل کا فعال ہونا بہت ہی نیک شگون ہے۔ اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 209کے تابع عدلیہ خوداحتسابی کے عمل کو باقاعدگی سے اپناتے ہوئے عوام الناس کا عدلیہ پر اعتماد کو بحال کروائے گی۔
واپس کریں