دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عدالت عظمی کی تشکیل و ترتیب اور افعال
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
درجہ بندی کے حساب سے سپریم کورٹ آف پاکستان ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ آئین و قانون کے تحت سپریم کورٹ حتمی ثالث کا کردار ادا کرتی ہے یعنی سائلین کے لئے دادرسی حاصل کرنے کا آخری فورم ہے۔ سال 1948میں فیڈرل کورٹ کا قیام ہوا جو 1937 میں قائم ہونے والی فیڈرل کورٹ آف انڈیا کی جانشین تھی۔ سال 1956میں پاکستان کے پہلے آئین نافظ ہونے کے بعد اعلی ترین عدالت کا نام فیڈرل کورٹ سے سپریم کورٹ آف پاکستان رکھا گیا۔ موجودہ سپریم کورٹ آئین پاکستان ، 1973کے آرٹیکل 175(1)کے تحت اپنا وجود قائم کئے ہوئے ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 189کے تحت پاکستان کی دیگر عدالتیں سپریم کورٹ کے احکامات اور فیصلوں کو ماننے کی پابند ہیں۔آرٹیکل 190کے تحت ریاست پاکستان کے تمام انتظامی اور عدالتی حکام سپریم کورٹ کی مدد کے لیے کام کرنے کے پابند ہیں۔1973کے آئین میں سپریم کورٹ کی تشکیل، دائرہ اختیار، اختیارات اور افعال کے بارے میں تفصیلی دفعات موجود ہیں۔ ججوں کی تقرری کے لیے اہلیت اور طریقہ، ریٹائرمنٹ کی عمر، برطرفی کے لیے بنیادیں اور طریقہ کار اور ججوں کی سروس کی شرائط و ضوابط تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں میں سے ہر ایک کا تقرر صدر آرٹیکل 175A کے تحت کرتا ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 176میں سپریم کورٹ کی تشکیل کا ذکر ملتا ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق سپریم کورٹ ایک چیف جسٹس اوردیگر ججز پر مشتمل ہوگی اور چیف جسٹس کے علاوہ ججز کے تعداد کا تعین آئین کے آرٹیکل 176کے تابع سپریم کورٹ (ججوں کی تعداد) ایکٹ، 1997میں طے کیا گیا ہے اس ایکٹ کے مطابق چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کی تعداد 16 ہو گی یعنی سپریم کورٹ میں بشمول چیف جسٹس ججز کی تعداد 17ہے۔ 18ویں اور 19ویں آئینی ترامیم کے بعد آرٹیکل 175A کے تابع جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے وضح کردی طریقہ کار کے مطابق سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرری عمل میں آتی ہے۔آرٹیکل 177میں سپریم کورٹ کے لئے تعینات ہونے والے ججز کی قابلیت بارےتفصیلات درج ہیں، جن کے مطابق کسی شخص کو سپریم کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ پاکستان کا شہری نہ ہو اور جسکے پاس کم از کم یا مجموعی طور پر پانچ سال پاکستان کی ہائیکورٹس بطور جج کا تجربہ ہو یا پھر کم از کم پندرہ سال تک ہائی کورٹ کے وکالت کی پریکٹس کا تجربہ ہو۔
آرٹیکل 178کے تابع عہدہ سنبھالنے سے پہلے، چیف جسٹس آف پاکستان صدر کے سامنے، اور سپریم کورٹ کا کوئی دوسرا جج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے حلف اٹھائے گا۔سپریم کورٹ ججز کا حلف آئین پاکستان کے تیسرے شیڈول میں درج ہے۔آرٹیکل 179کے تابع سپریم کورٹ کا جج 65 سال کی عمر تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، الا یہ کہ وہ آئین کے مطابق ریٹائرمنٹ سے پہلے استعفیٰ دے دے یا عہدے سے ہٹا دیا جائے۔آرٹیکل 180کے مطابق چیف جسٹس کی غیر موجودگی میں صدر پاکستان سینئر ترین جج کو قائم مقام چیف جسٹس تعینات کرے گا۔آرٹیکل 181اور 182میں سپریم کورٹ کے ججز کی غیر موجودگی /عدم دستیابی کی صورت میں صدر پاکستان ہائیکورٹ کے ایسے جج جو سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو تو اسکو قائم مقام جج تعینات کرسکتا ہے۔ اور اسی طرح صدر پاکستان ایڈہاک ججز کو بھی تعینات کرسکتا ہے۔سپریم کور ٹ کے اختیارات کی بات کی جائے تو آئین کے آرٹیکل 184کے تابع سپریم کورٹ کے پاس ابتدائی اختیار سماعت حاصل ہے۔جسکے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں یا صوبائی حکومتوں کے درمیان بین الحکومتی تنازعات کے تصفیہ کے لیے عدالت اعلانیہ فیصلے سناتی ہے۔
آرٹیکل 184(3)کے تحت سپریم کورٹ بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے ابتدائی اختیار سماعت استعمال کر سکتی ہے، اگر کیس میں عوامی اہمیت کا مسئلہ شامل ہو۔سوموٹو ایکشن اس اختیار کی بہترین مثال ہے۔آرٹیکل 185کے تابع سپریم کورٹ اپنے اپیلیٹ دائرہ اختیار کے تحت، عدالت ہائی کورٹس اور دیگر خصوصی عدالتوں/ٹربیونلز کے احکامات اور فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر غور کرتی ہے۔اگر، کسی بھی وقت، صدر یہ سمجھتا ہے کہ قانون کے کسی ایسے سوال پر سپریم کورٹ کی رائے حاصل کرنا ضروری ہے جسے وہ عوامی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے، تو وہ اس سوال کو غور کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔اس صورتحال میں آرٹیکل 186کے تحت سپریم کورٹ مشاورتی دائرہ اختیار کا بھی استعمال کرتی ہے۔سپریم کورٹ اس سوال پر غور کرے گی اور اس سوال پر اپنی رائے صدر کو بتائے گی۔
آرٹیکل 206کے مطابق سپریم کورٹ کا جج اپنے ہاتھ سے لکھے خط کے ذریعہ اپنا استعفی صدر پاکستان کو بھیج سکتا ہے۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 209 میں واضح طریقہ کاریعنی سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کے علاوہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کو عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔سپریم جوڈیشل کونسل ہی طے کرکے صدر کو رپورٹ کرے گی کہ آیا جج جسمانی یا ذہنی معذوری کی وجہ سے اپنے دفتر کے فرائض کو صحیح طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہےیا مس کنڈکٹ کا مرتکب پایا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کاروائی اور رپورٹ کے بعد ہی صدر جج کو عہدے سے ہٹا سکتا ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ججز کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ/ضابطہ اخلاق جاری کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے اور اس ضابطہ اخلاق کی پیروی کرنا سپریم کور ٹ اور ہائیکورٹس کے ججز پر لازم ہے۔
واپس کریں