دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہم جشنِ آذادی کیسے منائیں گے
احتشام الحق شامی
احتشام الحق شامی
ہم پاکستانی 14اگست کو یوم آزادی منائیں گے، سرکاری چھٹی ہو گی اور اکثر کے لیے یہ صرف ایک جشن کا دن ہو گا جبکہ قوم کا درخشاں مستقبل موٹر سائیکلوں کے سائلنسرز نکال کر جشنِ آذادی منائے گا اور کئی لوگ سوشل میڈیا پر حب الوطنی کے گیت گا کر اور انہیں اپ لوڈ کر کے یوم آزادی منائیں گے۔ جذباتی ڈرامے بھی اسٹیج ہوں گے جو حب الوطنی کو ظاہر کریں گے ہے لیکن اگلے دن کیا ہوگا؟ حقائق بہت تلخ ہیں۔ ہم انہی جھنڈوں کو سڑکوں پر روندتے اور کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے نظر آئیں گے جنہیں ایک روز قبل جھوم جھوم کر لہرایا جا رہا تھا۔
ایک خوش آئند خبر ہے کہ کراچی کی ایک عدالت نے جشن آزادی پر باجا بجانے اور خرید و فروخت پر پابندی لگادی ہے۔عدالت نے ریمارکس دیئے کے باجے بجانے والوں کیخلاف کارروائی کرکے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ جشن آزادی کے موقع پر باجے بناکرعوام کو پریشان کیا جاتا ہے۔تاہم ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ موٹر سائیکلوں سے سائلنسرز نکال کر ادہم مچانے والوں کو بھی روکا جائے اور ملک بھر میں جشنِ آذادی کو مذاق بنانے والوں کو پابند کیا جائے۔
75 سال گزرنے پہلے کے باوجود کیا ہم واقعی ایک آزاد قوم ہیں یا صرف ایک ہجوم؟ ہم ابھی تک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے، اہل اور دیانتدار لیڈروں کو منتخب کرنے، انصاف، معیاری تعلیم اور صحت فراہم کرنے، پریس کو آزاد رکھنے اور صنفی مساوات کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ملک تو بنااسلام کے نام پر تھا لیکن سرکاری سطح پر ابھی تک سودی نظام رائج ہے۔قومی زبان اردو ہے لیکن عدالتوں سے لے کر تمام سرکاری دفاتر تک سامراج کی زبان انگریزی چل رہی ہے۔قومی کھیل ہاکی ہے لیکن کرکٹ دیکھنے کا نشہ پوری قوم پر سوار کر دیا گیا ہے۔وہی برطانوی سامراج کے قوانین اور سزائیں،وہی ہندوانہ رسمیں اور وہی برطانیہ کا بتایا ہوا تعلیمی و فوجی نظام۔
برِ صغیر کے عوام نے تو انگریز سامراج سے آذادی حاصل کی تھی ہم نے کس سے لڑ کر”آذادی“ حاصل کی؟
آذادی اور بٹوارے میں فرق جان کر جیو
واپس کریں