احتشام الحق شامی
باتیں سخت ہیں لیکن حقائق یہی ہیں اس لیئے عرضِ پرواز ہوں کہ یہ خاکسار آخر کار اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ کسی بھی حکومت کے کسی بھی مثبت کام کی ہرگز تعریف و توصیف کے ڈونگرے نہ برسائے جائیں کیونکہ سو کالڈ حکمران ہمار ی ہی خون پسینے کی کمائی کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں،اپنی ڈیوٹی کرتے ہیں، قوم پر کسی بھی قسم کا کوئی احسان نہیں کرتے۔ سرکاری پروٹوکول انجوائے کرتے ہیں، مفت کی عیاشیاں مارتے ہیں۔ ان حکمرانوں پر ہر وقت تعمیری تنقید جاری رکھی جائے تا کہ بندے کے پتر بن کر رہیں۔انہیں ہرگز اپنے سروں پر مت چڑھائیں، انہیں ہیرو مت بنائیں،انہیں قوم کی آخری امید نہیں بنائیں، ہاں البتہ کسی بھی سیاسی نظریئے کو ضرور ابھاریں جو آپ کے نزدیک بہتر ہو۔
اپنا ووٹ دیتے وقت ان پر اپنا احسان جتائیں،ووٹ دیتے وقت انہیں ان کی اوقات یاد دلائیں اور ان کا انٹرویو لیں کہ کسی قابل بھی ہیں یا نہیں۔انہیں بتائیں کہ تم ہمارے حاکم نہیں بلکہ ہمارے خدمت گار ہو اور تم نے ہمارے مسائل حل کرنے ہیں اس کے لیئے ہم تمہیں اپنے ٹیکسوں سے تنخواہیں دیں گے اور انہیں بتائیں کہ تنخواہ لینے والا ملازم کہلاتا ہے اورانہیں پابند کریں کہ ہر ماہ حلقے میں آ کر انہوں نے اپنے ووٹروں کو اپنی کارکردگی بتانی ہے،جن کی وجہ سے امیدار صاحب پارلیمنٹ میں پہنچے۔
سو کالڈ حکمرانوں کی عادتیں بگاڑنے میں تمام قصور عوام الناس کا ہے، جو بات ووٹ دینے سے پہلے سوچنے کی ہے اس بات کو ووٹ دے کر سوچتے ہیں۔پہلے امیدوار ووٹروں کے پیچھے دوڑتا ہے اور بعد میں ووٹر اپنے جیتنے والے امیدار کے پیچھے لیکن جیتنے والے امیدار کے پاس وقت نہیں ہوتا تا وکتہ کہ اگلے الیکشن سر پر نہ آ جائیں۔پھر جنازے بھی یاد آتے ہیں،تعزیت بھی اور شادیاں بھی۔
عوام اپنے مسائل کے حل کے لیئے ہی الیکشن میں اپنے اپنے امیدواروں کو ووٹ کی طاقت سے پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں،اگر ان کا امیدوار اپنے حلقے کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو تو کیا اسے فوری طور پر اپنے حلقے کے عوام سے معافی مانگ کر پارلیمنٹ سے استعفیٰ نہیں دے دینا چاہیئے تا کہ کم از کم پارلیمنٹ کے اس نالائق ممبر پر ہونے والے سرکاری خرچے کی تو بچت ہو سکے لیکن کیا آپ نے ایسا کوئی غیرت مند سیاست دان دیکھا ہے جس نے اپنے حلقے کے مسائل حل نہ ہونے پر اپنی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا ہو اور اپنے حلقے کے عوام سے اپنی نالائیکی کی معافی مانگی ہو؟ مثلاً کیا موجودہ یا سابقہ حکمرانوں میں سے کسی نے بھی پریس کانفرنس میں عوامی مشکلات کے ضمن میں اپنے ٹسوے بہانے کے بجائے اپنی سیٹ سے استعفیٰ دینے کی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا ہے؟
سیاسی اور نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا یہ کہنا سو فیصد درست نظر آتا ہے کہ”پی ڈی ایم،پی پی اور پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہیں،تینوں سیاسی قوتوں کے نظریات ایک جیسے مگر مفادات میں ٹکراو ہے، حکمرانوں کی سیاسی ڈرامہ بازی سے لوگ اکتا گئے ہیں“
کہتے ہیں سیاست عبادت ہے لیکن یہ کون سی عبادت ہے جو قومی خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لے کر کی جاتی ہے؟آئندہ ووٹ دیتے وقت زرا سوچیئے گا۔
واپس کریں