احتشام الحق شامی
کچھ احباب کے نزدیک، خاکسار کبھی عمران خان کے حق میں اور کبھی خان کے خلاف بیانیہ شیئر کرتا ہے،جبکہ کچھ دوستوں کے خیال میں ناچیز اشٹبلشمنٹ کا کوئی چھپا رستم یا خفیہ یوتھیاء ہے اور کئی ایک کے نزدیک خاکسار چونکہ خود کو کٹر قسم کا ن لیگی ظاہر کرتا ہے لیکن بسا اوقات ن لیگ کا بیانیہ مضبوط کرنے کے بجائے ن لیگی قیادت پر تنقید کرتا ہے جو مناسب نہیں۔
اس ضمن میں عرضِ پرواز ہوں کہ استاتذہ کرام نے ہمیشہ تعمیری تنقید، حق و سچ لکھنے اور کہنے کی تربیت دی اور اسی بات کا پابند کیا کہ بوٹ پالش یا قصیدہ گوئی کرنے کے بجائے جو امر حقائق پر مبنی ہو اسے ہی بلا جھجک سپردِ قلم کیا جائے۔ امر واقع یہ ہے کہ اگر خان کے بازو مروڑ کر الیکشن لڑا اور جیتا جائے جیسا کہ 2018 میں نواز شریف کے بازو مروڑ کر الیکشن برپا کیا گیا تھا اور دشمن کو شکست دی گئی تھی تو کون ایسے الیکشن کو درست یا منصفانہ قرار دے گا؟اگر پہلے خان غلط تھا تو ڈنکے کی چوٹ پر اس کے خلاف لکھا اور تنقید کی، اب اگر خان کوئی بات ٹھیک کرتا ہے تو قلمی بد دیانتی سے گریز اور اسے تسلیم کرتے ہوئے کیوں نہ درست کہا اور لکھا جائے۔
اس خاکسار کو نہ نواز شریف یا زرداری لفافے دلواتے ہیں اور نہ ہی خان کی جانب سے کسی قسم کی تنخواہ وغیرہ، اس نا چیز کو کاروبارِ زندگی چلانے کے لیئے اپنی مدد آپ کے تحت معاملات چلانے کی توفیق عطاء ہے۔
اپنی تائم لائن پر پوسٹوں کی زیادہ شیئرنگ یا لائکس وغیرہ حاصل کرنا ہی اگر مقصود ہو تو،جانتا ہوں ن لیگ کی حمایت میں لکھی گئی اور خان کے خلاف تحریریں ٹائم لائن پر خوب دھوم مچاتی ہیں،کیونکہ فرینڈز لسٹ میں زیادہ تعداد ن لیگی بھائیوں کی ہے مگر مقصد چونکہ حق سچ بیان کرنا ہے اس لیئے کبھی بھی زیادہ فالونگ،شیئرنگ یا لائکس وغیرہ کے چکر میں پڑنے کی کوشش نہیں کی اور ہی اس ضمن میں کوئی تمنا یا خواہش دل میں پیدا ہوئی۔
خان کے سابق پرنسپل سکیرٹری اعظم خان کے حالیہ”اعترافی بیان“کے حوالے سے فیس بک پر اپنی ایک حالیہ پوسٹ کے بعد کمنٹس سیکشن میں جو ردعمل دیکھنے میں آیا ہے وہ بہت مثبت ہے،زیادہ تر احباب نے پوسٹ کے مطابق اعظم خان کے”اعترافی بیان“ کو بے حیثیت قرار دیا ہے جو ناچیز کے مذکورہ بالا موقف کی تائید ہے۔
وقت بدل رہا ہے، عوامی شعور اور آ گہی میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیئے بہت خوش آئند ہے۔ پاکستان کے لوگ بھی اب اندھی سیاسی تقلید اور سیاسی لیڈروں کی پوجا پاٹ کرنے کے بجائے حق سچ سننا اور پڑھنا پسند کرنے لگے ہیں جوکسی بھی ملک اور قوم کی ترقی اور جمہوری نظام کے لیئے کسی بڑی نعمت سے کم نہیں۔
سوشل میڈیا پر آوارہ گردی کرنے، اپنے سیاسی مخالفین پر لعن طعن کرنے اور مفت میں سیاسی لیڈروں کے حق میں ڈھول بجانے سے بہتر ہے کہ تعمیری تنقید کو فروغ دیا جائے تا کہ معاشرے اور خاص پر ملک کے بگڑے ہوئے سیاسی کلچر میں اصلاح ممکن ہو سکے۔
واپس کریں