دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پارٹی کارکنان یا سیاسی غلام
احتشام الحق شامی
احتشام الحق شامی
اب جبکہ میں عرضِ پرواز کرنے لگا ہوں تو پٹواری برادران اپنے اپنے تیروں اور نیزوں کا رخ خاکسار کی جانب فرما لیں کیونکہ موضع تلخ حقائق پر مبنی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اہم لیڈرشاہد خاقان عباسی کے حوالے سے تنقید ہو رہی ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی سے بے وفائی کی ہے، مری سے اپنے آبائی حلقے سے الیکشن ہارنے کے بعد ان کی پارٹی یعنی ن لیگ نے انہیں لاہور سے الیکشن جتوایا اور اس سے قبل وزیرِ اعظم بھی بنوایا۔ باالفاظِ دیگر عباسی صاحب نے احسان فراموشی کی۔
شاہد خاقان عباسی نے ڈیکٹیٹر پرویز مشرف اور پھر عمران نیازی کے دورِ فسطایت میں بے گناہ ہوتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، ان کا کاروبار تباہ کیا گیا، انہوں نے شدید دباؤ کے باوجود بھی نواز شریف اور مسلم لیگ ن کا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن امر واقع یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے جب مسلم لیگ ن پر یا اپنی قیادت پر تنقید کرنا شروع کی اس وقت ان کی پارٹی اقتدار میں آ چکی تھی یعنی تقریباً دس ماہ قبل سے۔اس سے پہلے انہوں نے کبھی بھی اپنی پارٹی یا قیادت کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔
اب اگر عباسی صاحب موجودہ سیاسی نظام یا پھر اپنی سیاسی جماعت پر میرٹ پر تنقید کرتے ہیں تو اسے برداشت کر لینا چاہیئے۔
یہ بات بھی یاد رکھ لینی چاہیئے کہ مسلم لیگ ن میں عباسی صاحب کے علاوہ درجنوں ایسے اہم لیڈر یا عہدیدار موجود ہیں جو عباسی صاحب کے ہم خیال ہیں لیکن انہیں حق سچ بولنے سے زیادہ اپنے سیاسی مفادات زیادہ عزیز ہیں جن میں خواجہ آصف،خواجہ سعد رفیق اور سید مشاہد حسین نمایاں ہیں۔مخدوم جاوید ہاشمی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟یہی کہ وہ بھی ڈنکے کے چوٹ پر لیکن میرٹ پر مسلم لیگ ن کی قیادت پر تعمیری تنقید کرنے کے جرم میں مسلم لیگ ن سے کارنر کر دیئے گئے۔
قصہ مختصر کہ پارٹی نے اگر عباسی صاحب کو وزیرِ اعظم بنوایا اور پھر لاہور سے الیکشن جتوایا تو عباسی صاحب نے بھی نواز شریف کے ساتھی ہونے کے نام پر کئی کئی ماہ جیلیں کاٹیں ہیں۔گویا حساب برابر سمجھا جائے۔
جب نواز شریف صاحب اپنی پارٹی کے تا حیات سربراہ ہوں گے، ان کے بھائی صاحب ملک کے وزیرِ اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری مرتبہ پارٹی کے صدر اور بیٹی پارٹی کی چیف آرگنائزر اور ساتھ میں نائب صدر”بلا مقابلہ“ منتخب ہوں تو پھر اگر تنقید کرنے کے جرم میں پارٹی کے کسی لیڈر کے خلاف مہم چلوائی جائے تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بھان متی کا کنبہ کہلاتی ہے اور بھان متی کے کنبے میں کارکنان کا ہمیشہ قحط رہتا ہے جیسے جب نواز شریف صاحب کو عمران نیازی کے دور میں گرفتار کیا گیا تھا تو محض درجن بھر کارکنان نے احتجاج کیا تھا اور بھی صرف ایک دن۔ جبکہ اس سے قبل جب نواز شریف صاحب اپنی بیٹی کے ساتھ لندن سے پاکستان اپنی گرفتاری دینے آئے تھے تو ان کے اپنے یہی بھائی صاحب پارٹی کارکنان کے ہمراہ لاہور شہر میں مٹر گشت کرتے رہے، بھائی کو ملنے ائرپورٹ نہیں پہنچے لیکن اندرونِ پارٹی ان بھائی صاحب سے اس ضمن میں کسی قسم کی باز پرس نہیں کی گئی۔
پارٹی صدر شہباز شریف صاحب اگر وزیرِ خزانہ اسحق ڈار صاحب پر تعمیری تنقید کو ٹانگیں کھینچنا سمجھتے ہیں اور تنقید کرنے والوں کو پارٹی چھوڑنے کے دھمکی آمیز مشورے دینے لگے ہیں تو اندازہ لگا لینا چاہیئے کہ آئندہ عام انتخابات میں پارٹی لیڈران اور کارکنان کس عدم دلچسپی سے انتخابی مہم میں حصہ لیں گے۔
واپس کریں