دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خاکسار کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں
احتشام الحق شامی
احتشام الحق شامی
اطلاعات کے مطابق پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کوپاکستان واپسی کے لیئے آمادہ کرنے کے مشن پر لندن گئے ہیں اور اس ضمن میں انہیں ممکنہ طور پر اشٹبلشمنٹ کی آشیر آباد حاصل ہے۔ خاکسار کی رائے ہے، میاں نواز شریف کو کسی قیمت پر بھی واپس نہیں آنا چاہیئے وہ لندن میں بیٹھ کر بھی سیاست کر سکتے ہیں۔وہ تبھی ملک واپس سکتے ہیں جب ان پر قائم مقدمات کے خاتمے کی یقین دہانی کروائی جا ئے گی اس صورت میں ان پر اشٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک اور ڈیل کرنے کا الزام لگے گا جس کا انہیں اور ان کی مسلم لیگ ن کو سیاسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نوشتہ دیوار ہے جبکہ اس صورت میں آنے والے انتخابات میں ن لیگ کو ایک اور ڈیل کرنے کے طعنے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب یہ بھی عیاں ہو گیا ہے کہ پنجاب میں ن لیگ کا مقابلہ کرنے کے لیئے اشٹبلشمنٹ کے نمائندہِ خاص جہانگیر ترین کو نیا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے،اس طرح جب اشٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ ق لیگ، تحریکِ لبیک، جہانگیر ترین گروپ اورپی پی پی اور پی ٹی آئی جیسی تگڑی سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں موجود ہوں گی تو ن لیگ کو خاص طور پر پنجاب میں پہلے جیسا حلوہ میسر نہیں ہو گا۔
حالات بدل چکے ہیں اب پنجاب میں صرف اکیلی پی پی پی نہیں بلکہ مذکورہ سیاسی جماعتیں پوری طرح اپنا کردار ادا کر کے ن لیگ کو اتنا ٹف ٹائم دیں گی کہ ن لیگ تن تنہا حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں آ سکے گی۔ایسے میں اگر نواز شریف ملک میں آ بھی جاتے ہیں تو انہیں کسی قسم کا خاطر خواہ سیاسی فائدہ نہیں ہونے والا۔
خاکسار ایک مرتبہ پھر عرض کرتا ہے کہ اشٹبلشمنٹ پوری طرح سے یہ طے کر چکی ہے کہ نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دینا اور ماضی قریب میں اشٹبلشمنٹ کی زبردست مخالف مریم نواز کو بھی اقتدار سے دور رکھنا ہے۔

حال ہی میں ایک فوجی تقریب میں ایک ساتھ بیٹھے موجودہ اور سابق سپہ سالار کی تصویر نے واضع کر دیا ہے کہ اشٹبلشمنٹ یا ادارے کی سابقہ اور موجودہ پالیسی میں کوئی خاص فرق نہیں ہو گا۔اگر نواز شریف پہلے بھی ناقابلِ قبول تھے تو اب بھی اشٹبلشمنٹ کو قبول نہیں ہوں گے۔

نواز شریف اگر اپنے اوپر قائم مقدمات کا سامنا کرنے وطن واپس آتے ہیں تو سو بسم اللہ لیکن اگر وہ پاور پالیٹکس میں اپنے آپ کو دوبارہ فرنٹ لائن پر دیکھنے کے خواہاں ہیں تو یہ مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ اشٹبلشمنٹ اپنے خلاف مخالفت کو جلد نہیں بھولتی بلکہ انتقام لینے کے لیئے ہر ممکن حد تک جانے کی کوشش کرتی ہے۔ ماضی قریب میں دیکھئے، زلفقار علی بھٹو،بے نظیر، محمد خان جونیجو،یوسف رضا گیلانی اور اب عمران خان کی مثال بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔
سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں لیکن مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی جو تصویر خاکسار کے ذہن میں بنی ہے اسے سپردِ قلم کیا ہے، اس لیئے خاکسار کے رائے سے اتفاق ضروری نہیں۔پاکستان زندہ باد
واپس کریں