دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جب وفاقی حکومت کا ایک ماتحت ادارہ حکومت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کھڑا ہو گیا
 شرافت رانا ایڈووکیٹ
شرافت رانا ایڈووکیٹ
بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔نواز شریف جج۔ جرنیل ۔ جرنلسٹ باؤلے کتوں کی طرح محترمہ کی ٹانگوں میں ہر روز نئے سرے سے کاٹنے کو دوڑا کرتے تھے۔ دن میں چار بار سپریم کورٹ کے جج صاحبان پیپلز پارٹی کی حکومت کو کاٹا کرتے تھے۔
ملک میں 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا چلن تھا۔صنعت اور زراعت کو ترقی دینے کے لیے ہمیں ایک سال میں یا دو سال میں نہیں چند ہفتوں میں بجلی کی ضرورت تھی۔شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے تاریخ کی سب سے بڑی فارن انویسٹمنٹ ڈرائیو کا اہتمام کیااور بجلی پیدا کرنے والے نئے نظام کو ترتیب دیا۔
اس میں سب سے بڑا پروجیکٹ حب کو کے نام سے سامنے آیا۔ جس سے اس وقت حکومت پاکستان نے معاہدہ کیا کہ وہ بجلی بنائیں اور حکومت پاکستان چھ سینٹ فی یونٹ سے تیار شدہ بجلی خریدے گی۔پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام ادوار میں ایسی انویسٹمنٹ میں کک بیکس اور کمیشن ججوں جرنیلوں اور سیاست دانوں کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں۔اس لیے پیپلز پارٹی کو کبھی بھی اس طرح کے بڑے پروجیکٹ کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور سپریم کورٹ براہ راست حملہ کرتی ہے۔
اچانک ایک انقلاب رونما ہوا اور اس وقت واپڈا کے چیئرمین جو ایک ریٹائرڈ جنرل تھے انہوں نے حکومت پاکستان کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن ڈال دی۔
اس کا عنوان تھا "واپڈا بنام حب کو وغیرہ یعنی حکومت پاکستان بے نظیر بھٹو وغیرہ ۔"تصور کیجیے وفاقی حکومت کا ایک ماتحت ادارہ وفاقی حکومت کو براہ راست سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کھڑا ہو گیا ۔
میڈیائی مہم پر اپوزیشن نے اربوں روپے خرچ کیے اور ثابت کر دیا گیا کہ یہ معاہدہ کک بیکس اور کرپشن کی بنیاد پر پاکستان کا سب سے بڑا سکینڈل ہے۔سماعت شروع ہوئی سپریم کورٹ کا بینچ پنجے جھاڑ کر حب کو کے وکیل اور اٹارنی جنرل پر حملہ اور ہوا۔
دو گھنٹے تک جج صاحبان نے اخبارات کے لیے ٹکرز بنوائے اور ثابت کیا کہ بے نظیر بھٹو دنیا کی سب سے کرپٹ وزیراعظم ہے اور موجودہ حکومت نے کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں لہذا وہ اج شام کو تک بے نظیر بھٹو اور حبکو کی ایگزیکٹو کو جیل بھجوا کر چھوڑیں گے۔
دلیل ایک ہی تھی کہ حبکو نے اسی دور میں بنگلہ دیش میں ایک پروجیکٹ کیا تھا جس میں معاہدہ میں تین سینٹ فی یونٹ بجلی پیدا کی جانی تھی ۔جبکہ پاکستانی معاہدہ میں چھ سینٹ فی یونٹ کا ریٹ مقرر کیا گیا تھا۔
دو اڑھائی گھنٹے کے بعد جب سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھونک بھونک کر تھک گئے تو حبکو کے وکیل کو موقع ملا اور وہ روسٹرم پر سامنے ہوا اس نے بولنے کی اجازت مانگی۔
حبکو کے وکیل نے پیشکش کی کہ حبکو پاکستان میں بنگلہ دیش والا معاہدہ بعینہٖ نافذ کرنے کے لیے تیار ہے اور پیشکش کرتی ہے۔
جج صاحب ان اچانک گھبرا گئے اور الٹ کر پیچھے گرے۔
وقفہ ہوا۔ پٹیشنر اور جج صاحبان نے علیحدہ بیٹھ کر مشاورت کی اور ایک گھنٹے کے بعد دوبارہ عدالتی کاروائی شروع ہوئی۔واپڈا کا وکیل آگے بڑھا اور اس نے استدعا کی کہ واپڈا اپنی درخواست کو واپس لینا چاہتا ہے۔
حبکو کے وکیل اور اٹارنی جنرل نے کہا کہ جناب ہم اج فیصلہ لے کر جائیں گے اپ اس مقدمہ پر کاروائی جاری رکھیں تاکہ جھوٹے الزامات لگانے والے کو سزا ہو سکے۔اٹارنی جنرل اور حبکو کا وکیل جج صاحبان کی پتلون کو پیچھے سے پکڑ کر کھینچ رہا تھا کہ اپ عدالت میں بیٹھیں تشریف رکھیں۔
جج صاحبان درخواست بصیغہ واپسی کا حکم سنا کر بھاگ نکلے۔ واپڈا نے اپنا مقدمہ جھوٹا پا کر واپس لے لیااور جج صاحبان نے جھوٹ سچ کا فیصلہ کرنے کی بجائے جان بچا کر بھاگنے میں عافیت سمجھی۔
ان سب نطفہ نا تحقیق جج صاحبان وکیل صاحبان جرنلسٹ صاحبان اور جرنل صاحبان کے بچے اج بھی بھونکنے کے لیے کسی چیز کا مطالعہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔
آج بھی اس مقدمہ سے پہلے کے پروپیگنڈا کو دہراتے رہتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ تھا کہ بنگلہ دیش نے حب کو کمپنی کو اجازت دی تھی کہ وہ ایندھن یعنی پیٹرول یا فرنیس ائل دنیا میں کسی بھی جگہ مقابلہ جاتی قیمت کے تحت خریدنے میں ازاد ہے اور بنگلہ دیش ایندھن کی امپورٹ پر اس سے کوئی ٹیکس نہیں لے گا۔
جبکہ حکومت پاکستان نے حبکو کو فرنیس ائل یا پٹرول کی خریداری کے لیے پی ایس او سے پاکستان کے اندر ٹیکس سمیت ایندھن خریدنے کا پابند بنایا تھا جس سے حکومت پاکستان کو معاہدہ زیادہ بہتر شرائط پر اور منافع بخش ملا تھا۔
1998 میں ایک اڈٹ کیا گیا جس نے ثابت کیا کہ اس وقت تک حبکو واپڈا کے تمام پاور سٹیشن سے سستی بجلی پیدا کر رہی تھی۔
مگر بھونکنے میں کیا کوئی قیمت لگتی ہے جو جی چاہا بول دیا جو جی چاہا لکھ دیا۔
واپس کریں