دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
برصغیر کو colonized کیسے کیا گیا ؟
بادشاہ عادل
بادشاہ عادل
لارڈ میکالے lord Macaulay جب ہمارا تعلیمی نظام design کر رہا تھا تو اس نظام کا سب سے بنیادی مقصد اس نے یہ بیان کیا !
We must at present do our best to form a class who may be interpreters between us and the millions whom we govern; a class of persons, Indian in blood and colour, but English in taste, in opinions, in morals, and in intellect.
”ہمیں فی الحال اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ایک ایسا طبقہ تیار کریں جو ہمارے اور ان کروڑوں لوگوں کے درمیان ترجمان کا کردار ادا کر سکے جن پر ہم حکومت کرتے ہیں؛ ایک ایسا طبقہ جو خون اور رنگت میں تو ہندوستانی ہو، لیکن ذوق، خیالات، اخلاق اور عقل میں انگریز ہو۔”
اسی طرح دوسرے درجے میں کلرک کی سوچ رکھنے والے افراد پیدا کیے گیے جو نوکری سے اگے سوچ ہی نہ سکیں۔
اکبر الہ ابادی نے کہا تھا کہ !
احباب کی کار نمایاں کر گیے
بی اے ہوۓ , نوکر ہوۓ , پنشن ملی پھر مر گیے
اسی طرح دین اور دنیا کی تفریق پیدا کر کے تیسرے درجے میں مذھبی فرقے پیدا کیے گیے جن کی بھی سوچ کو محدود کر کے فروعی مسائل میں الجھا دیا گیا حالانکہ اسلام اک دین ہے جو گھر کے نظام سے لے بین الااقوامی نظام کے universal principles دیتا ہے ۔ اج ہمارے سات مذھبی بورڈ ہیں اور ہر اک کا سلیبس دوسرے کو کافر ثابت کرنے میں پیش پیش ہے دونوں دین اور دنیا میں تقسیم تعلیمی ادارے ایک education secretary کے under چل رہے ہیں۔
اس سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے Governor-General Lord Cornwallis ہمارا معاشی نظام بھی جاگیردارانہ طرز پر استوار کر چکے تھے جہاں لوگوں اور حکومت سے زمینیں چھین کر چند وفادار جاگیرداروں کے حوالے کر دییں گٸی ۔
ان جاگیرداروں کی حفاظت 1862 کے پولیس ایکٹ کے زریعے سے یقینی بناٸی گٸی , عدالتی ڈھانچہ اس طرح استوار کیا گیا کہ انصاف کی بولی لگا کر یہ طبقہ انصاف خرید سکے اور عوام پچاس پچاس سال تک عدالتوں میں گھومتی رہے ۔
” لارڈ میکالے لکھتا ہے زمانہ ماضی کے ایشیا اور غیر ایشیا کے جابر حکمرانوں کے مظالم کا جب سپریم کورٹ کے انصاف کے ساتھ مقابلہ کیا جاۓ ان کے مظالم اک نعمت محسوس ہوتے ہیں ۔ ہماری عدالتیں کیا ہیں فراڈ ہیں جن میں پولیس , گواہ , وکیل اور جج سب مل کر تماشا کرتے ہیں اور من گھڑت شہادتوں کا ہیر پھیر کرتے ہیں“
اسی طرح ہمارے سیاسی نظام کی ڈیزاٸنگ بھی ایسے ہی ہوٸی جہاں جاگیردار / سرمایہ دار طبقے کے علاوہ کوٸی دوسرا طبقہ پارلیمنٹ اور سینٹ میں اکثریت کبھی نہ لے سکے اج اپ صاف شفاف الیکشن کروا کر بھی دیکھ لیں بلکہ ووٹ کو باٸیو میڑک کر دیں نونانوے فیصد یہی طبقہ پارلیمنٹ میں ہو گا ۔
پھر ان جاگیرداروں کی تربیت کے لیے ایچی سن , لارنس کالج , ایڈورڈ , فورٹ ویلیم کالج , سنسکرت کالج , عالیہ مدرسہ وغیرہ وغیرہ جیسے ادارے کھول کر ان کو حکومت چلانے کی تربیت دی گٸی اس پورے process پر تقریبا دو سو سال لگے اور جب انگریز یہاں سے جانے لگا تو حکومت اپنے تربیت یافتہ طبقے جاگیرداروں کے حوالے کر گیا ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کا اک نیا global neo-colonial socio-economic structure تیار ہو رہا تھا تو اس کے لیے colonial masters نے پہلے سے ہی local colonial structure اور اس کو چلانے کی تربیت یافتہ ٹیم تیار کر رکھی تھی جس کے زریعے سے local colonial structure کو عالمی neo-colonial structure سے لنک کر دیا گیا۔
پاکستان بننے سے پہلے ہی ہمارے پہلے finance minister غلام محمد کی ٹریننگ IMF کے زریعے سے arrange کروا دی گٸی تھی کہ پاکستان کو قرضوں کی معشیت میں کیسے رکھنا ہے ؟ اور اج تک IMF کا trained بندہ ہی ہمارا فنانس منسٹر بنتا ہے جس کا کام حکومت کو قاٸل کرنا ہوتا کہ ہم IMF کے قرضے کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتے۔ پاکستان نے پہلا قرضہ دس کروڑ کا لیا تھا اب یہ قرضہ 80 ہزار ارب تک پہچ چکا ہے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ IMF کبھی بھی elite class کی مراعات جو UNDP کی اک رپورٹ کے مطابق 17.5 ارب ڈالر یعنی پاکستانی تقریبا 5000 ارب روپے سالانہ بنتے ہیں کو کم کرنے کا نہیں کہتا ؟ اور نہ ہی اس طبقے کی ہر چھ مہنے یا سال بعد 200 یا 600 % تنخواہ بڑھانے پر اعتراض کرتا ہے ؟ حالانکہ عام نوکر پیشہ لوگوں کی 10% تنخواہ بڑھانے پر IMF سے اجازت لینی پڑھتی ہے ؟ مہینوں اس پر debates چلتی ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ کہ انگریز نے جو طبقہ حکومت کرنے کے لیے تیار کیا تھا وہ neo-colonial global” socio-economic structure” کا اک پروجیکٹ تھا اور یہ اس پروجیکیٹ کی “elite class“ تربیت یافتہ ٹیم ہے جو پہلے بات ہو چکی یہ مراعات تو ان کو وفاداری کے عوض دی جاتی ہیں اسی elite class کے زریعے سے عالمی سامراج یہاں کے معدنی وسائل سونا چاندی , کروماٸیٹ , کوٸلہ , نمک , گیس , تیل , بجلی پر قابض ہے دوسری طرف چوبیس کروڑ عوام کا خون پسینہ کی ادھی کماٸی سود کی شکل میں لے جاتا ہے ۔
اج ضرورت اس امر کی ہے کہ colonization کا جو عمل انگریز نے یہاں دہرایا اب اس کی کیسے الٹا دہرایا جاۓ یہی الٹا دہرانے کا عمل decolonisation کہلاتا ہے تب ہی عالمی سامراج اور ان کے مقامی الہ کاروں کی غلامی سے نکل سکتے ہیں ۔ اج کے دور کی غلامی کی زنجیریں مادی نہیں بلکہ نفیساتی ہیں جو نظام کا اجتماعی شعور ہی توڑ سکتا ہے۔
واپس کریں