دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہمارا اصل دشمن کون؟
بادشاہ عادل
بادشاہ عادل
ریاست کا نظام وہ ڈھانچہ ہوتا ہے جو لوگوں کی نفسیات ، معاشیات، سماجیات اور سیاسیات کو تشکیل دیتا ہے ۔ شاہ ولی اللہ رح فرماتے ہیں کہ ریاست کا معاشی نظام وہاں کے لوگوں کی اخلاقیات کو سنوار یا پگاڑ رہا ہوتا ہے اس لیے انبیا کا پہلا ہدف اس سوسایٹی کا فاسد معاشی نظام توڑنا ہوتا ہے فرعون نے عوام کے آپنی معاشی نظام کے زریعے سے طبقات بناۓ ہوۓ تھے ، فکری اعتبار سے لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کیا ہوا تھا اور سیاسی اعتبار سے نوجوانوں کو قتل کرتا کہ وہ اس کے نظام کے خلاف کھڑے نہ ہو جائیں قران نے اس نقشہ یوں کھنچا
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآىٕفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۔
اسی طرح ابوجہل کی سوسایٹی کا مشاہدہ کریں تو اکثریت ابادی کو غلام رکھا ہوا تھا غلاموں کے بازار لگا کرتے تھے جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نظام کے خلاف قران کی فکر پر شعوری جدوجہد شروع کی تو وہ اپ کا
دشمن بن گیا ۔
اگر ہم اپنی سوسائٹی کی بات کریں تو یہاں پر ایڈم سمتھ
کے سودی اصولوں پر قائم معاشی نظام کی بدترین شکل ہے جو مغربی ممالک میں اپ ڈیڈڈ ہے ۔ کوئی بھی معاشی نظام چار بڑے اصولوں پر مشتمل ہوتا ہے یعنی پیدائش ، تقسیم ، تبادلہ اور خرچ دولت کے اصول اور اگر تقسیم دولت کے اصول کو دیکھا جاۓ تو ایڈیم سمتھ نے پیدائش دولت کے چار عوامل بیان کیے کہ پیدا شدہ دولت کس اصول پر تقسیم کی جاۓ وہ چار عوامل زمین ، سرمایہ ، تنظیم اور چوتھی چیز محنت ہے اب جب دولت کی پیدائش کا عمل ہو گا تو سرمایہ کے عوض سود ، زمین کے بدلے کرایہ اور تنظیم کے حصے میں بونس ، مراعات اور اچھی تنخواہیں سرمایہ دار لے جاتا ہے باقی پانچ یا دس فیصد محنت کو دیا جاتا ہے یعنی پیداوار کا سو میں نوے روپے سرمایہ دار اور دس روپے مزدور کو ملتے ہیں ۔ اس لیے سوسایٹی میں اک طبقہ امیر سے امیر تر اور اکثریتی طبقہ غریب سے غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ کیونکہ تقسیم دولت کا آصول ہی غلط اور محنت کے استحصال پر کھڑا ہے ۔
دوسری طرف اسلام تقسیم دولت کے دو ہی عوامل بیان کرتا ہے اک محنت اور دوسرا سرمایہ اب اسلام یہاں محنت اور سرماۓ میں توازن کا اصول دیتا ہے اور محنت کو اصل اور سرماۓ کو معاون قرار دیتا ہے یعنی محنت کا حق سو روپے میں سے اسی روپے ہونا ہے اس لیے اسلام کے نظام میں محنت کرنے والا طبقہ عزت دار اور مال دار ہوتا ہے جبکہ سرمایہ داری نظام میں محنت کرنے والا طبقہ کمی کمین اور ان کی محنت کو ہتھیانے والا عزت دار ہوتا ہے ۔
اسلام دوسرا معاشی اصول حق معشیت میں مساوات کا ہے ۔ یعنی ملک میں جتنے وسائل ہیں معدنیات ، سونا ،چاندی ، زمین جنگلات وغیرہ ان پر وہاں کے بسنے والے چاہے جس مذھب ، قبیلے یا قوم سے تعلق رکھتے ہیں ان سب کا برابر حق ہے کوئ طبقہ ان وسائل پر اجارہ دار نہیں بن سکتآ جو اج پانچ فیصد طبقے نے ستر فیصد زمین اور بیشتر معدنیات پر اک غلط نظام کے زریعے سے قابض ہے اس کو اسلام نہیں مانتا اس طرح جو ادھی ابادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے وہ اک خوشحال اور باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہو گی ۔
اسلام کا تیسرا اصول درجات معشیت میں تفاوت کا ہے یعنی سوسایٹی میں رہنے والا ہر شحض کی صلاحیت مختلف ہے اب وہ اپنی صلاحیت کی وجہ سے زیادہ یا کم کما سکتا ہے ۔ اس سوسایٹی میں درجات تو رہیں گے لیکن طبقات نہیں بنے گے ۔ جس طرح سرمایہ داری نظام میں پانج فیصد طبقہ پچاسی فیصد وسائل کا مالک اور ادھی سے زیادہ ابادی دو وقت کی روٹی کی محتاج ہو ایسے معاشرے کو اسلام نہیں مانتا۔
اسلام کا چوتھا بڑا اصول احتکار اور اکتناز دولت کی ممانعت ہے یعنی اکتناز دولت یعنی دولت کا اک چھوٹے سے طبقے میں جمع ہو جانا جس کی وجہ سے سوسایٹی میں غربت پھیل جاۓ ۔ اور دوسرا احتکار یعنی کھانے پینے کی اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کر کے دولت کمانا ۔جسے مارکیٹ کا طلب اور رسد کا قانون ہے جب کسی چیز کی قلت ہوتی تو اس کی طلب بڑھتی ہے اور یہ طلب مصنوعی قلت پیدا کر کے بنائ جاتی ہے جب مارکیٹ قیمت بڑھاتی ہے تو رسد کو بھی بڑھا دیا جاتا ہے اس طرح زیادہ منافع کمایا جاتا ہے جو اسلام میں منع ہے۔
اگر ان اصولوں پر سوسایٹی کا معاشی فریم ورک بنتا ہے تو یقینا سوسایٹی سے غربت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جاۓ گا ۔
لیکن موجودہ سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام اور ان کا پالا ہوا رسمی مذھبی طبقہ کبھی ایسا نہیں ہونے دے گا وہ اپ کو دیوبندی بناکر بریلوی سے لڑاۓ گا ، اور حیاتی بنا کر مماتی سے لڑاۓ گا شیعہ کو سنی سے لڑاۓ گا ، سندھی کو بلوچی ، پٹھان کو پنجابی سے لڑاۓ گا ۔ اگر اپ اس لڑائ سے تھک گیے تو اپ کے لیے باہر کے دشمن بناۓ گا کبھی انڈیا تو کبھی ایران دشمن بن جاۓ گا کبھی اپ کو روس سے ڈرا کر اپنے مفاد لے گا کبھی افغانستان کو دشمن بنا دے گا ۔
یاد رکھیے یہ سارے دشمن صرف اصل دشمن یعنی ملک میں قائم بوسیدہ اور لوٹ مار کا نظام جس کی بدولت یہ ایک فیصد اشرافیہ ملکی وسائل اور عوام کی محنت کی مالک بن کر بیٹھی ہے کو چھپانے کے لیے بناۓ جاتے ہیں اور سوسایٹی میں ہمیشہ انتشار رکھا جاتا ہے تاکہ لوگوں کی توجہ اصل دشمن جو اشرافیہ کا نظام ہے کی طرف نہ جا سکے ۔
اشرافیہ کا یہ طبقہ جس چیز سے ڈرتا ہے وہ نظام کے خلاف شعور اور شعوری جدوجہد ہے اور یہ کب تک شعور کے اگے بند باندھتے رہیں گے ۔
واپس کریں