عفت حسن رضوی
یہ 2016 کی سپریم کورٹ کا منظر تھا۔ جج کی کرسی پر انور ظہیر جمالی بیٹھے تھے اور سامنے روسٹرم پر پاکستان میں انسانی حقوق کی چیمپیئن مرحومہ عاصمہ جہانگیر کھڑی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر ان دنوں عسکریت پسندی کے مقدمات میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کی اپیلوں کی پیروی کررہی تھیں۔مقدمے کی تفصیل جو بھی تھی لیکن عاصمہ جہانگیر کے دلائل میرے حافظے میں آج بھی محفوظ ہیں۔ وہ اعلیٰ عدالت کو بار بار کہتیں کہ فوجی عدالتوں میں فیئر ٹرائل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جہاں ملزم کو وکیل تک نہیں کرنے دیا جاتا، وہاں کیسا انصاف، کہاں کا انصاف۔
اب اس مرتبہ نو مئی کے مقدمات میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کو تمام قانونی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے سزائیں سنائی گئی ہیں۔
ججز آرمی ایکٹ کی دفعات پڑھنے کا کہتے اور عاصمہ جہانگیر ججز کو یاد دلاتیں کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ پاکستانی آئین کرتا ہے اور فوجی عدالتیں شہریوں کو انصاف تک رسائی کا بنیادی حق نہیں دیتیں۔ فوجی عدالتوں کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے عاصمہ جہانگیر تو یہ تک کہہ گئیں کہ فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والوں کو تو یہ بھی علم نہیں کہ ان کا جرم کیا ہے۔
پاکستان میں فوجی عدالتیں، 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت سال 2015 میں اس وقت قائم کی گئی تھیں، جب ملک میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی۔ انہیں دو سال کا مینڈیٹ دیا گیا تھا۔ ان فوجی عدالتوں میں عسکریت پسندی کے مقدمات میں مطلوب عام شہریوں کا ٹرائل اور سزائیں اپنے آغاز سے ہی شدید بحث کا موضوع رہیں۔
پاکستان کی وکلا تنظیموں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا، تاہم سپریم کورٹ کے ایک فل کورٹ بینچ نے اکثریتی فیصلے سے فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت کو تسلیم کیا تھا۔
فوجی عدالتوں کے فوائد و محاسن گنوانے میں صرف سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی نہیں، پاکستان کے سیاست دان بھی پیچھے نہیں رہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے فوجی عدالتوں کے قیام کو تاریخی قرار دے کر کہا تھا کہ ’غیر معمولی حالات کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
اسی طرح سابق وزیراعظم عمران خان بھی ماضی میں فوجی عدالتوں کے حق میں بولتے نظر آئے۔ یوں بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے جڑی ہر بات کی جی حضوری کرنے میں سیاست دان بہرحال ایک پیج پر نظر آتے ہیں۔فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت پر آئین کا چاہے جتنا تڑکا لگا لیں، رہیں گی وہ فوجی عدالتیں ہی۔ وہ فوجی عدالتیں جن کی شفافیت پر خود ادارے کے سابق افسران اکثر سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ فوجی عدالتیں جن کے قواعد و ضوابط سے سیاست دان بھی لاعلم ہیں۔ وہ فوجی عدالتیں جن کے مقدمات لینے سے وکلا بھی گھبراتے ہیں اور وہ فوجی عدالتیں جن کے فیصلوں کی اپیل ہم عام شہریوں کی عام سی عدالت میں آئے تو جج صاحب کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔
کیونکہ ہم بات کر رہے ہیں ان فوجی عدالتوں کی جہاں ملزمان کے وکلا کو بھی یہ جاننے میں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ ملزم پر الزام کیا ہے اور فرد جرم کیا ہے۔ قانونی جھمیلوں میں پڑنے والوں کو علم ہے کہ عدالت میں کاغذ کیا اہمیت رکھتے ہیں، لیکن فوجی عدالت سے مقدمے کے اہم دستاویز حاصل کرنا گویا ملکی راز پانے جیسا ’مشن امپاسبل‘ ہوتا ہے۔
یہ فوجی عدالتیں کہاں چلتی ہیں، کون ٹرائل چلاتا ہے، کون فیصلہ کس قانون کے تحت کیا سناتا ہے؟ اس بات کا سوائے فوجی عدالت کے کسی کو علم نہیں ہوتا۔ ملزم کو سزا سنا کر مجرم قرار دے دیا جائے تو تفصیلی فیصلہ حاصل کرنے کی کہانی الگ ہے۔
فوجی عدالتیں فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کرتی ہیں لیکن پاکستان میں کتنے وکلا ہیں، جو فوجی ایکٹ میں ماہر سمجھے جاتے ہیں اور بالفرض کوئی وکیل فوجی ایکٹ رَٹ بھی لے تو کیا فوجی عدالت میں اسے اپنی وکالت کی مہارت دکھانے کا موقع بھی ملے گا؟ یہ بھی فوجی عدالتوں سے لپٹی ’مسٹری‘ میں سے ایک ہے۔
حال ہی میں پاکستان کی فوجی عدالت نے درجنوں کے حساب سے عام شہریوں کا ٹرائل کر کے انہیں نو مئی کے سیاسی احتجاج کے جرم کی سزا سنائی ہے۔ یہ فیصلہ تاریخ میں ہر حوالے سےمتنازع ہی رہے گا کیونکہ جن عدالتوں سے یہ سزا سنائی گئی وہ عدالتیں باوجود مضبوط آئینی ستون رکھنے کے آج تک پاکستانی عوام میں مقبول نہیں ہو سکیں۔
پاکستانی عوام کا کیا ہے انہیں تو ہانکا ہی جا رہا ہے، لیکن عالمی تنظیمیں، انسانی حقوق کے ادارے، جمہوریت کے داعی ممالک بھی اس فیصلے اور فوجی عدالتوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
فوجی عدالتوں کے حامی پہلے بھی ان کی کارکردگی کی مثال دیتے تھے کہ جن سنگین جرائم کے مجرموں کو عدالتیں کمزور شہادت کا بہانہ بنا کر چھوڑ دیتی ہیں، انہیں فوجی عدالتیں دنوں کے اندر سزا سنا کر حساب پاک کرتی ہیں۔ ایسے ہی موجودہ نو مئی کے مقدمات میں دلیل یہ ہے کہ چونکہ مظاہرین کا حملہ فوجی تنصیبات پر تھا، اس لیے سزا بھی فوجی عدالتیں سنائیں گی، لیکن ان تمام دلیلوں کے ملبے میں پاکستان کا عدالتی نظام انصاف بہت نیچے دب گیا ہے۔
جیسے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ معاملہ بالکل وہی ہے یعنی ایک ملک میں دو متوازی نظام عدل بن گئے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ سیشن کورٹ سے لے کر عدالت عظمیٰ تک مقدمات کھرے ہیں یا کھوٹے، جو ہے عوام کے سامنے ہے، لیکن ان فوجی عدالتوں میں عدل کیسے بانٹا جارہا ہے، یہ جاننا ذرا مشکل ہے۔
واپس کریں