دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بغداد، بنتا بگڑتا عجوبہ
عفت حسن رضوی
عفت حسن رضوی
کوئی 10 برس قبل بغداد کی بات ہوتی تو جنگ زدگی یہاں کے احوال میں شامل تھی۔ پھر پانچ سال قبل یہاں آنا ہوا تو یہ شہر اپنی ٹوٹی کمر سیدھی کرنے کی کوشش میں تھا۔ آج پھر بغداد میں ہوں اور یہ شہر بن رہا ہے۔ یوں لگتا ہے بغداد کی مٹی بالکل وہی مٹی ہے، جس سے گھڑے بنا کرتے ہیں۔ بن کر بکھر جانا اور بکھری مٹی سے پھر کوئی نئی اور بہتر شکل اختیار کرلینا بغداد کا مزاج ہے۔
13 ویں صدی، جب بغداد میں سائنس، علم الابدن، فلسفہ، کیمیا اور ریاضی کے علوم دین کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ پنپ رہے تھے، یہ شہر ادب، موسیقی، اور شاعری کے حوالے سے بھی عربوں کی تہذیب کا گڑھ بنا ہوا تھا۔
ایسے میں منگول فوج کے کمانڈر ہلاکو خان نے اس زمین کا رخ کیا اور ایسی تباہی پھیری کہ پھر بغداد دوبارہ وہ حیثیت حاصل نہ کر سکا۔
ہلاکو خان کی فوج نے شہر کو لوٹ مار کے بعد آگ لگا کر راکھ بنانے کا پلان بنایا، جس میں تاریخ کا سب سے قیمتی سرمایہ یعنی بغداد کے مدرسے، دارالحکومت، سرکاری و غیر سرکاری لائبریریاں، دار الامرا میں موجود عراق سمیت عرب و عجم کے سفارتی و تاریخی دستاویزات سب جل کر بھسم ہو گئے۔
سقوط بغداد میں خلافت عباسیہ کی بساط بھی لپیٹ دی گئی۔ یوں یہ زمین ایک طویل عرصے تک سیاسی کشمکش کے نئے دور میں داخل ہو گئی۔
20 ویں صدی کے آغاز میں عراق برطانوی کالونی بن گیا، جس کے بعد وہی ہوا جو اپنے برصغیر کے ساتھ ہوا تھا یعنی بغداد سے سارا مال و متاع، جواہرات و نوادرات سمیٹا گیا۔ پھر وہ لگا کچھ بادشاہ کی تجوری میں، کچھ ملکہ کے تاج پہ اور کچھ برٹش میوزیم میں۔
بغداد کے بننے بگڑنے کی تاریخ میں امریکہ کا نام جلی حروف میں آئے گا۔ جب آج سے کچھ صدی بعد تاریخ پڑھائی جائے گی تو عراق پر امریکی جارحیت کو بالکل ویسے ہی یاد کیا جائے گا، جیسے ہلاکو خان کی فوج کو۔
2003 سے قبل عراق اپنی علاقائی جنگوں، ڈکٹیٹرشپ، سیاسی ہنگامہ خیزی اور خانہ جنگی سے نپٹ رہا تھا۔ بغداد میں بے چینی ضرور تھی لیکن بغداد تاراج نہیں تھا۔
لائبریری میں بیٹھ کر نوجوان عراقی کیا پڑھ سکتا ہے شاید اس پہ قدغن تھی لیکن کم از کم لائبریری تو تھی۔ پھر امریکہ اپنی فوج سمیت وارد ہو گیا بلکہ وارد نہیں قابض ہو گیا۔
امریکی موجودگی میں اور کتنی تںاہی ہوئی اس تفصیل کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ امریکی حملوں میں بغداد کی نیشنل لائبریری اتنی برباد ہو گئی تھی کہ اس کی عمارت کا سریہ بھی پگھل گیا، پھر کتابیں کیا بچی ہوں گی۔
امریکی حکام و افواج سے عراق میں جو کچھ ہوا اس کے لیے فقط ابو غریب جیل کا نام لینا ہی کافی ہے اور جو کچھ بغداد کی لوٹ سیل میں رہی سہی کسر باقی تھی وہ تسلی سے پوری کی گئی۔آج بغداد امریکہ کی مسلط جنگ اور جنگ کے بعد خانہ جنگی کے طولانی دور کے بعد ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔
ایک بار پھر بغداد اس وقت زیر تعمیر ہے۔ بغداد میں کسی جانب بھی سفر کر لیں پانچ کلومیٹر کے دائرے میں کوئی نہ کوئی سڑک بن رہی ہو گی، پل بنایا جا رہا ہو گا، جگہ جگہ نئی اور اونچی رہائشی عمارتوں کی تعمیر عروج پر ہے۔
سڑکوں پر وال چاکنگ اور بل بورڈز پہ مزدور، مستری، کرین سروس اور تعمیراتی سامان کے اشتہارات کی کثرت ہے۔
بغداد کی سڑکوں کی دھلائی ہوتے چونکہ میں نے خود نصف شب اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اس لیے لکھ رہی ہوں۔ باقی چونکہ بغداد بہت تیزی سے تعمیر کے مرحلے سے گزر رہا ہے اس لیے سڑکوں پر اژدہام معمول ہے۔
بغداد مجموعی طور پر صاف ہے اور جیسا ہمارے بچپن میں کراچی کا علاقہ ناظم آباد ستھرا اور سلیقے سے بنا لگتا تھا کچھ کچھ ویسا ہی تاثر ہے۔شہر کے وہ مقامات جہاں عباسی دور حکومت میں محلات و دفاتر اور مدارس تھے انہیں پھر سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ بغداد میں تاریخ اسلام کے ان گنت باب گلی گلی بکھرے ہیں۔
حدیث و فقہ کے شیخ، امام اور اساتذہ کی اکثریت اسی شہر میں مدفون ہیں، جن کے باعث یہاں زائرین کا ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں آنا سارا سال جاری رہتا ہے لیکن بغداد کو ایک سیاحتی مقام بننے میں ابھی بہت کچھ کرنا ہو گا۔
بغداد میں انسانی تاریخ کے قدیم ترین دور کی یادگاریں اٹلی کے معروف سیاحتی و تاریخی مقام روم کے ٹکر کی ہیں لیکن روم کے مقابلے میں سیاحوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ بغداد کی انتظامیہ کو اس کا اندازہ ہے اسی لیے پورے زور و شور سے شہر کے تاریخی مقامات، قہوہ خانے اور ثقافتی مقامات کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان سے زیارات کے لیے بغداد، کربلا و نجف جانے والوں کی کمی نہیں لیکن بغداد کی تاریخ کی جانب دیکھتے کم ہی لوگ ہیں۔
بغداد کو اپنی ٹی وی سکرین پر جلتے، ٹوٹتے اور بکھرتے تو ہم سب نے دیکھا ہے لیکن اگر کوئی اپنے سامنے اس عجوبہ شہر کو بنتا دیکھنا چاہتا ہے تو بغداد کا رخ کرے
واپس کریں