عفت حسن رضوی
پاکستان کے سوشل میڈیا پہ نسلی عصبیت کا ایسا شاندار مظاہرہ شاید اس سے قبل اس پیمانے پر نہیں ہوا تھا۔ مذہبی اور علاقائی نفرت کے اظہار کے لیے ہمیں کسی سیزن کی ضرورت نہیں ہوتی ہم سارا سال نفرت کا یہ بازار گرم رکھتے ہیں۔اب خود ساختہ نسلی و قومی تفاخر کے ماروں کو افغان پناہ گزینوں کے خلاف زہر اگلنے کی نئی وجہ مل گئی۔حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ملک چھوڑنے کے لیے اکتوبر کا آخری دن حتمی ڈیڈ لائن کے طور پر دیا ہے۔حکم ہے کہ یا تو افغانستان واپس چلے جائیں یا پاکستانی حکام کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر ملک بدری کا سامنا کریں۔
خانہ جنگی کے ستائے افراد کی ہجرت صرف تنہا پاکستان کے حصے میں نہیں آئی۔ ترکی اس وقت قانونی اور غیر قانونی شامی پناہ گزینوں سے بھرا پڑا ہے۔ جرمنی میں بھی شامی، کردش، عراقی پناہ گزینوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
امریکہ اور کئی یورپی ممالک ایرانی اور افغان پناہ گزین کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔ جنگ و جدل کے متاثرین کی نئی کھیپ یوکرینی پناہ گزین کی ہے جو روس یوکرین جنگ کے بعد یورپ کے مختلف ممالک میں بطور مہاجر نئی زندگی کی تلاش میں ہیں۔
پاکستان خانہ جنگی جیسی صورت حال سے نہیں گزر رہا لیکن ہمارے مخدوش معاشی حالات کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی غیر قانونی راستوں سے یورپ ہجرت کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ پاکستانی جن کشتیوں میں بیٹھے ہوتے ہیں ان میں جنگ کے متاثرہ شامی یا افغان ان کے ہم سفر ہوتے ہیں۔ اب سوچ لیں کہ جن حالات میں خود پاکستانی باہر جانے کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار ہوں اسی پاکستان میں پناہ لینے والے کس مجبوری کا شکار ہوں گے؟
افغان پناہ گزین کو پاکستان کا نمک یاد دلانے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ افغانستان کے داخلی معاملات میں پاکستان کا کردار ان افغان پناہ گزینوں کی فرمائش یا درخواست پہ نہیں ہوا۔
پاکستان نے 40 سال پہلے افغان پناہ گزین کے لیے اپنے دروازے ثواب کمانے کے لیے نہیں کھولے تھے۔ افغان پناہ گزین کو قبول کرنا ہمارا ریاستی فیصلہ اور علاقائی پالیسی کا حصہ تھا۔
ہم عالمی معاہدوں میں فریق بنے تھے، ہم پناہ گزین کی آبادکاری کے لیے عالمی فنڈنگ کا گڑھ ہوا کرتے تھے۔ انجلینا جولی یہاں ہمارے سیاست دانوں کے ساتھ ڈنر کرنے نہیں آئی تھی انہی پناہ گزینوں سے ملنے آئی تھی۔
حکومت پاکستان کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً 40 لاکھ افغان شہری پناہ گزین ہیں، جن میں 14 لاکھ رجسٹرڈ اور 26 لاکھ غیر رجسٹرڈ ہیں۔
ان غیر رجسٹرڈ کو رجسٹرڈ بنانا، ان کی آبادکاری کرنا، انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا، ان کے کاروبار کو رجسٹر کرنا اور جرائم پیشہ افغان باشندوں کو پکڑ کر ملک بدر کرنا یہ سب ریاست پاکستان کی ذمہ داری تھی۔
ہم نے افغان شہریوں کو پہلے اندھا دھند آنے دیا، آگئے تو انہیں سنبھالنے کا کوئی مناسب بندوبست نہیں کرسکے۔ یہ قابو سے باہر ہوگئے تو جیسے آنے دیا تھا ویسے ہی بغیر کسی منصوبے کے ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک چھوڑ جائیں۔رہی بحث کہ سارے افغان عسکریت گرد، شرپسند، جہادی، منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہیں تو ایسی ہی نسلی پروفائلنگ مغربی ممالک میں ہم مسلمانوں کی اجتماعی طور پر کی گئی جن میں خود ہم پاکستانی بھی شامل ہیں۔
سکالرز نے مقالے لکھے، صحافی آگے آئے، تنظیمیں بنیں جو لوگوں کو صرف اتنا بتانے سمجھانے کا کام کرتی رہیں کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے۔
بالکل ایسے ہی پاکستانیوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ خانہ جنگی میں ترک وطن کرنے والے افغان خود شرپسندوں کے متاثرین ہیں، یہ خود مظلوم ہیں۔اور ساتھ یہ مغالطہ بھی ذہن سے نکال دیں کہ پاکستان میں دہشت گردی صرف اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ یہاں افغان پناہ گزین رہتے ہیں۔وہ افغان شہری جو پیدا پاکستان میں ہوا، وہ افغان شہری جس کی ماں یا باپ میں سے ایک پاکستانی ہیں، یا وہ افغان جو آج افغان سے زیادہ خود کو پاکستانی سمجھتا ہے، افغانستان سے زیادہ کراچی تا گلگت پاکستان کے راستوں کو جانتا ہے، اسے پولیس اہلکار صرف اس وجہ سے پکڑ لے کہ وہ افغان شہری ہے، یہ دلوں میں نفرتوں کے بیج بونے کے مترادف ہے۔
مذہب، کسی حد تک زبان اور علاقائی جڑیں ایک ہونے کے باوجود پاکستان میں مقیم افغانیوں کی دوسری تیسری نسل کی پاکستانائزیشن ہوئی، نہیں ہوئی، ہونا چاہیے تھی یا نہیں ہونا چاہیے تھی ان سماجی سائنسی سوالات پہ ہم نے کبھی کام کیا نہیں کیونکہ یہاں بات آٹے نمک سے آگے نہیں بڑھ پائی۔
افغانیوں کو پاکستانی نمک کا قرض یاد دلانے سے زیادہ ضرورت ہے کہ پاکستان ان عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو یاد دلائے کہ مغرب کے جنگی ہیجان کا خمیازہ افغان پناہ گزین اور پاکستان کیوں بھگتیں؟
اب کی بار ڈو مور کہنے کی باری پاکستان کی ہے۔ پاکستان جو خود معاشی گرداب میں گھرا ہے اسے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان کو اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزین سنبھالنے کے لیے مزید تکنیکی اور مالی امداد کی ضرورت ہے۔
ساتھ ہی وہ مغربی ممالک جنہوں نے افغانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں اپنے ملک میں پناہ دیں گے وہ بھی آگے آئیں، پاکستان انہیں جوابدہ کرے۔
پاکستان، جسے افغان پناہگزین کے معاملے پہ دنیا سے جواب طلب چاہیے تھا آج اپنی ’اچانک اینٹی پناہ گزین پالیسی‘ کے باعث دفاعی تاویلیں دے رہا ہے۔
پاکستان میں افغانیوں کی تیسری نسل جوان ہورہی ہے، ہزاروں وہ ہیں جو بحالت مجبوری پہلی بار پاکستان آئے۔ یہ افغان شہری ہمارے خطے کے سماجی، ثقافتی اور سیاسی تانے بانے کا حصہ ہیں، جلد بازی میں ان سے کسی نا کسی طرح پیچھا چھڑانے کی پالیسی مستقبل میں صرف نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرے گی۔
واپس کریں