دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستانی خواتین ابھی راستے میں ہیں
عفت حسن رضوی
عفت حسن رضوی
یوں تو مکمل آزادی، برابری اور باوقار زندگی کی منزل تک پہنچنے کے لیے دنیا بھر کی خواتین کا سفر جاری ہے لیکن ہم پاکستانی ہونے کے ناطے پاکستانی خواتین کی جدوجہد پہ بات کریں گے۔انیس، بیس کے فرق سے پاکستان میں خواتین کی اکثریت کو ایک سی دنیا ملی ہے۔ ان عورتوں کے نام، جگہ اور حالات تو الگ ہو سکتے ہیں لیکن زندگی انہیں بطور خاتون ایک سے چیلنجز دیتی ہے۔
باوجود اس کے کہ پاکستانی خواتین سماجی حیثیت، ذہنی و نفسیاتی صلاحیت اور تعلیمی قابلیت مختلف رکھتی ہیں لیکن صنفی برابری، آزادی، صنفی بنیاد پہ تشدد، بدسلوکی اور جنسی ہراسانی جیسے موضوعات پہ ہماری خواتین کی اکثریت بہت ہی محدود معلومات رکھتی ہے۔ یہ بات ہوا میں تیر نہیں کئی سماجی تحقیقات کا نچوڑ ہے۔
ہماری خواتین کو صدیوں سے لے کر آج تک ایک ایسی ثقافت کی عادت پڑ چکی ہے جہاں انسانی رشتوں میں طبقاتی، نسلی اور جنس کے اعتبار سے طاقت کی تقسیم معمول ہے۔ ہماری رسمیں، گھریلو ماحول، سماجی رویے، فلمیں، ڈرامے اور ناولز اس تصور کو تقویت دیتے ہیں کہ یہ مرد کی خصلت ہے کہ وہ عورت کی ذمہ داری لے اور جب ذمہ داری نبھانی ہو تو کبھی کبھی عورت کو کنٹرول بھی کرنا پڑتا ہے، کنٹرول کرنے میں کچھ سختی بھی دکھانی پڑ جاتی ہے، سختی میں کچھ تلخی آ ہی جاتی ہے اور عورت کے اکسانے پہ اگر بات تلخی سے آگے بڑھ جائے تو ہاتھ بھی اٹھ جاتا ہے۔
کنٹرول کے اس چکر کی ہمیں اس قدر عادت پڑ گئی ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہمارے ڈی این اے میں مردوں کی جی حضوری کے پرنٹ ایسے چھپ گئے ہیں کہ بعض انتہائی پڑھی لکھی خواتین سے بھی پوچھا جائے کہ صنفی بنیاد پہ تشدد، ہراسانی یا بدسلوکی کیا ہوتی ہے تو وہ جواب نہیں دے سکتیں۔
اس تحریر میں مختصراً ایسے رویوں کی بات ہے جن کے بارے میں خواتین بلکہ حضرات کو بھی علم ہونا چاہیے کہ کہیں جانے انجانے میں وہ بھی پدرشاہی معاشرے کے آلہ کار تو نہیں۔
مرد اور عورت کے قریبی رشتوں جیسے کہ بہن بھائی، ماں بیٹے، شوہر بیوی، باپ بیٹی اور جذباتی رشتے میں جڑے لڑکا لڑکی کے درمیان طاقت کی تقسیم واضح طور پہ ہوتی ہے، جس میں پلڑا مردوں کی جانب جھکا ہوا ہوتا ہے۔ طاقت کے اظہار میں عورت سے بدسلوکی پہلی سٹیج ہے۔
بدسلوکی میں سخت رویہ، زبانی ڈانٹ پھٹکار، طعنے تشنے، گالیاں، مہمانوں، رشتے داروں یا بچوں کے سامنے جھڑکنا، تواتر سے عورت کو کم عقل اور کمزور کہنا، سنجیدہ بات سن کر ہنسی میں اڑا دینا اور ایسے دسیوں طریقے شامل ہیں۔بدسلوکی کے بعد اگلی سٹیج عورت کو جذباتی اور نفسیاتی مار دینا ہوتی ہے۔ اس میں عورت کو معاشرے، دوست احباب سے الگ تھلگ رکھنا، آنے جانے پہ پابندی، ان کی حرکات پہ نظر رکھنا اور جتانا کہ ان کی مانیٹرنگ ہو رہی ہے، بچے چھین لینے کی دھمکیاں دینا، عورت کے لباس یا سنورنے پہ پابندی یا تنقید، عورت کو اس کی شوق کی چیزوں سے دور رکھنا اور ایسے حربے شامل ہیں جن کا ذکر نہایت معمولی لگتا ہے لیکن انہیں جب بطور ہتھیار استعمال کیا جائے تو نتیجہ ایک ڈپریشن زدہ عورت ہوتی ہے۔
بدسلوکی، نفسیاتی اور جذباتی تشدد کے علاوہ عورت کے معاشی ذرائع زندگی کو اپنے کنٹرول میں رکھنا بھی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ عورت کو کمانے نہ دینا اور کما لیں تو ان کی کمائی چھین لی جاتی ہے، بعض کیسز میں عورت کو اپنے بینک کے معاملات ڈیل نہ کرنے دینا معاشی تشدد ہے۔ اپنے گھر کی عورتوں کو کام نہ کرنے دینا بظاہر محبت کا ایک استعارہ بنا دیا گیا لیکن اسی جملے کو یوں پڑھیں کہ اپنے گھر کی عورتوں کو معاشی طور پہ خود مختار نہ ہونے دینا اور ہمیشہ معاشی طور پر محتاج بنائے رکھنا کیا یہ بھی محبت کی کوئی نشانی ہے؟
معاشی خودمختاری کے جواب میں مرد کا معاشی ذمہ داری اٹھانا، گھر کا کفیل ہونا جیسے جواب دیے جاتے ہیں لیکن مرد کی کمائی کا حصہ اس گھر کی عورت کو ملنا، گھر کی فلاح و بہبود، بچوں کی ضرورت پہ خرچ ہونا، یا کمائی کہاں کیسے خرچ ہوگی اس کا فیصلہ کرنا صرف کمانے والے مرد کی مرضی پہ منحصر ہے۔
یقیناً اچھی مثالوں کی کمی نہیں لیکن یہاں ہم بات ان مردوں کی کر رہے ہیں، جن کی مہربانیوں کا شکار متاثرہ عورتیں خالی جیب، خالی ہاتھ اور خالی پیٹ اپنے نصیب کو رو رہی ہوتی ہیں۔جنسی تشدد کو ہمارے معاشرے میں فی الحال کسی گنتی میں نہیں لایا جاتا کیوں کہ یہ بات کریں تو بات سماج، ثقافت، نیشنلزم سے ہوتی ہوئی مذہب تک پہنچا دی جاتی ہے اور رہ گیا جسمانی تشدد تو جسمانی تشدد کی تعریف و تشریح کی بہت زیادہ ضرورت نہیں کیونکہ مار کھانے والے سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ جسمانی تشدد کس بلا کا نام ہے۔
یہ تو متاثرہ عورت ہی بتا سکتی ہے کہ ٹوٹا جبڑا، نیلے بازو، سوجن سے پھولی آنکھیں، نوچے گئے بال، زبردستی شیو کی گئی بھنوئیں، پھوٹا ماتھا اور ٹوٹی ہڈیاں کس قدر تکلیف دیتی ہیں۔
خواتین کے عالمی کے دن کے موقع پہ وہی پرانی لن ترانی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جدوجہد کے رستے میں ہم پاکستانی عورتوں کا سفر ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
سڑکوں پہ نکلتے عورت مارچ، ٹی وی سکرین پہ بیٹھی خواتین اینکرز، وردی میں ملبوس بہادر خاتون پولیس انسپکٹر، دبنگ خاتون کمشنر یا پھر خاتون وزیراعظم کے بعد حال ہی میں بنی پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ اس لمبے سفر کے صرف چند ایک سنگ میل ہیں۔
واپس کریں