دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ناروے اتنا امیر کیوں ہے؟
عفت حسن رضوی
عفت حسن رضوی
آج ناروے کا 14 اگست ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں 17 مئی کے دن ناروے کا آئین تشکیل پایا۔یہ چُنا مُنا سا ملک ہے، ہم ناروے میں پاکستانی کمیونٹی والے اکثر کہتے ہیں کہ پورا ناروے کُل ملا کر پنڈی، اسلام آباد کی آبادی کے برابر بھی نہیں۔رقبے کے اعتبار سے ناروے آدھے پاکستان کے برابر ہے لیکن آبادی صرف 55 لاکھ۔گنتی کے تھوڑے سے لوگ ہیں جو محض چند ایک بڑے شہروں یا ان کے قریب جوار میں رہتے ہیں اس لیے ہزاروں میلوں لمبی مسافت کے علاقے قدرتی اور اصل شکل میں ہی موجود ہیں۔
اب ذرا تھوڑی سی آبادی اور بڑے رقبے والے اس ملک کی دولت پہ رال ٹپکاتے ہیں۔ ناروے کی سالانہ آمدن و پروڈکشن اور جی ڈی پی ساڑھے پانچ سو ارب ڈالرز تک ہے۔
یہ تو وہ پیسہ ہے جو مسلسل سائیکل کی شکل میں سسٹم میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ ناروے کی اصل طاقت اس کی بچت ہے۔ بچت یعنی اصل معنوں میں پیسے بچانے کی پالیسی۔
ناروے کی کُل بچت کی رقم ایک اعشاریہ چھ ٹریلین ڈالرز ہے۔ یعنی ہر نارویجن شہری تقریباً تین لاکھ امریکی ڈالرز کا مالک ہوا، اپنے روپوں میں سمجھنا ہے تو ہر نارویجن شہری کے لیے تقریباً 82 لاکھ پاکستانی روپے ناروے کے بچت اکاؤنٹ میں پڑے ہیں۔
جو اصل اکاؤنٹ میں خزانہ ہے وہ اس سے الگ ہے۔
ٹریلین ڈالرز کا یہ بچت اکاؤنٹ معیشت کی زبان میں نارویجن گورنمنٹ پینشن فنڈ گلوبل کہلاتا ہے لیکن عام طور پہ اسے ناروے کا آئل فنڈ کہتے ہیں کیونکہ یہ رقم دراصل ناروے نے اپنے تیل کے خزانے بیچ کر کمائی ہے اور اپنی قوم کے آنے والے کل کے لیے بچائی ہے۔
ناروے ہمیشہ سے اتنا امیر نہیں تھا کہ دنیا کے امیر ترین ملکوں کی فہرست میں ٹاپ پہ ہو لیکن 1960 میں ناروے کے گہرے سمندر میں تیل کے ذخائر دریافت ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے گویا خزانے کے منہ کھل گئے۔
ناروے کے تیل کے ذخائر پہ عالمی تیل کمپنیوں نے 70 کی دہائی میں ٹھیکے حاصل کیے۔
یوں ناروے گویا ڈالرز چھاپنے لگا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ناروے بھی نو دولتیوں کی طرح آپے سے باہر ہوتا، آئینی طور پہ ناروے کا مالک و مختار یعنی بادشاہ اور شاہی خاندان شوخیاں کرتے نظر آتے، بے تحاشا پیسہ ہے تو کرپشن کے ریکارڈ توڑے جاتے، عوام اور سیاست دان ڈالرز کی بارش میں نہاتے، دکھاوے کے لیے ڈالرز وارے جاتے۔
لیکن ایسا ویسا کچھ نہیں ہوا یا پھر یوں کہیے کہ بعض دور اندیش پالیسی سازوں نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ناروے کے ماہرین معیشت نے نئی نئی دولت ملنے پہ اس دن کا سوچنا شروع کیا جب ناروے کے پانیوں میں موجود تیل کے ذخائر خشک ہوجائیں، تب ناروے کیا کرے گا، سوچا گیا کہ تیل کے کنوئیں خشک نہ بھی ہوں، لیکن کیا پتہ کل کو کئی اور ممالک میں تیل نکل آیا اور تیل کی مارکیٹ ویلیو کم ہوگئی تب ہم کیا کریں گے۔
یوں محض چند لاکھ لوگوں کے اس ملک نے بلین ڈالرز کی آمدن کو ٹریلین ڈالر بنانے کے لیے بچت کا پرانا نسخہ استعمال کیا۔
اپنی دولت کو سنبھالنے کا خیال تو ناروے کو شروع سے تھا لیکن پالیسی بناتے بناتے ناروے کو 30 سال لگے، یوں 1996 میں پہلی بار بچت اکاؤنٹ میں ناروے نے اپنی کمائی کا کچھ حصہ ڈالنا شروع کیا۔
آج ناروے کے آئل فنڈ کی چھاپ دنیا بھر میں ہے۔ تقریباً 9000 بین الاقوامی کمپنیوں میں ناروے کے شیئرز ہیں۔ ان میں روزمرہ کھانے کی اشیا بنانے والی کمپنی سے لے کر موبائل کی بڑی بڑی کمپنیاں شامل ہیں، یہ کمپنیاں خوب کماتی ہے تو کمائی کا شیئر ناروے بیٹھے بٹھائے حاصل کرتا ہے۔
72 ملکوں کی معیشت میں ناروے نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اس طرح ان ممالک کا بھلا تو ہوتا ہی ہے لیکن ناروے خاموشی سے ان ممالک کی ترقی کا پھل دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر کھا رہا ہے۔
ناروے غریب یا پھر مشکل میں پھنسے ممالک کو قرضے بھی دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کا نام تو ہر پاکستانی نے سن رکھا ہوگا، ناروے اسی مد میں مانگنے والے ممالک کو قرضے دیتا ہے، ظاہر ہے قرض دیتا ہے تو پھر سود کی شکل میں رقم کی وصولی بھی ہوتی ہے۔ یوں ہونے والی کمائی الگ ہے۔
ناروے جس دانشمندی سے اپنے وسائل بچا رہا ہے اور جس طرح پھونک پھونک کر یہ وسائل استعمال کررہا ہے، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
ناروے کی ریاستی پالیسی اس کی دولت کی شکل میں بولتی ہے۔ یہ دولت ہی ناروے کی خارجی پالیسی کا ستون ہے، یہی دولت ناروے کے اندرونی معاملات کو سنبھالے ہوئے ہے۔
ناروے کی بے تحاشا دولت کی ایک جھلک دکھانے کا مقصد ناروے کی شفافیت کا ایک نظارہ کروانا بھی ہے۔
ناروے کے ٹریلین ڈالرز کے اس بچت اکاؤنٹ کی ایک ایک پائی کہاں، کیسے اور کیوں استعمال ہو رہی ہے، اس کی تفصیل ناروے کے قومی خزانے کی ویب سائٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے ہے۔
ناروے کی چادر اگرچہ بہت بڑی ہے لیکن یہ پاؤں بہت دیکھ بھال کر پھیلاتے ہیں۔
ہم پاکستانی بطور ملک تو خیر کیا ہی ناروے کی مثال سے کچھ سیکھیں گے لیکن ہمیں اپنی انفرادی زندگی میں ناروے سے سیکھنا چاہیے کہ اگر دستیاب وسائل کی قدر کریں گے تو اور ملے گا اور ملتا ہی رہے گا۔
واپس کریں