عفت حسن رضوی
ایک بار پھر خیبر پختونخوا کے سرحدی ضلع کرم میں قبائل مدمقابل ہوئے ہیں۔ یہ زمین کے تنازعے پر ایک دوسرے کی جان لے رہے ہیں۔سرخیاں تو یہی ہیں لیکن اس تنازع کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس زمین کے جھگڑے کی ابتدا قیام پاکستان سے کچھ برس قبل کی ہے اور سر پیٹ لینے کی بات یہ کہ قبائل کے درمیان زمین کا یہ تنازع کئی بار جنگ کی سی صورت حال پیدا کر چکا ہے۔اس تنازعے کی سنگینی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ مسئلہ صرف زمین کا نہیں، معاملے کی اصل نزاکت آمنے سامنے موجود قبائل ہیں جن کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کی پوری تاریخ موجود ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ اس قدر نازک نوعیت کا معاملہ ہے لیکن ریاست نے گذشتہ 75 برسوں میں حل کرنے کی نتیجہ خیز کوشش نہیں کی۔جب بھی کرم میں زمین کے تنازعے نے سر اٹھایا یہ درجنوں جانیں لے گیا اور ہر بار مقامی قبائلی جرگے نے معاملات کو سنبھالا، کبھی امن معاہدے طے پائے تو کچھ عرصے کے لیے امن قائم ہوا، کبھی سیز فائر پہ اکتفا کیا گیا اور کبھی طے پایا کہ اتھارٹیز کی مدد سے اس مسئلے کے حل کی کوشش ہو گی لیکن ہر بار کسی شرپسند کی معمولی سے شر انگیزی امن معاہدے کو توڑنے کا سبب بنی اور حالات قبائل کی جنگ تک جا پہنچے۔
ماضی میں کرم کے لوگوں نے خون آلود دن اور بارود سے دھندلی شامیں کئی بار دیکھی ہیں لیکن سوشل میڈیا نہیں تھا اس لیے یہ مسئلہ کبھی ایسے ہائی لائٹ نہیں ہوتا تھا جیسے اس بار ہوا۔
اس بار پاکستان بھر کی توجہ کرم کی جانب اس لیے بھی گئی کیونکہ کچھ ہفتوں پہلے کرم کے اسی تنازعے کی حالیہ ابتدا سات اساتذہ کے قتل سے ہوئی تھی۔یہ سانحہ تری منگل نامی سرحدی علاقے کے ایک ہائی سکول میں پیش آیا جہاں حملہ آوروں نے سات اساتذہ کو اس لیے بےدردی سے مار ڈالا تھا۔
ان اساتذہ کی تعلیمی قابلیت سائنسی مضامین میں ایم فل تھی اور ایک استاد ڈاکٹریٹ بھی کر رہے تھے۔
اگرچہ اس واقعے کے بعد کرم کے قبائل نے معاملات دبانے کی بڑی کوشش کی، تاہم اس زمینی تنازعے کی جڑیں سات دہائیوں پرانی ہیں۔ امن معاہدے اس سلسلے میں وقتی حل ثابت ہوئے۔
سیاسی و سماجی کارکن ریاض علی طوری کا تعلق پارہ چنار کے اسی قبیلے سے ہے جو اس تنازعے میں ایک فریق ہے۔
وہ سوشل میڈیا پہ مسلسل اس علاقے میں امن کی اپیلیں کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ ان سے بات سیز فائر کے بعد ہوئی لیکن ان کے لہجے کی تشویش بتا رہی تھی کہ اہلیان کرم اس تنازعے سے کس قدر اکتا چکے ہیں۔
ریاض طوری کا کہنا تھا کہ کرم کے لوگ وہ امن چاہتے ہیں۔ جب کبھی حالات کشیدہ ہوئے جانی نقصان دونوں فریقین کا ہوا ہے لیکن اس بار اساتذہ کے قتل کے بعد طوری قبیلے نے بڑے صبر سے کام لیا مگر پھر بھی حالات بدتر ہوتے چلے گئے۔
ریاض علی طوری پھر وہ دن یاد کرنے لگے جب ملک میں عسکریت پسندی عروج پر تھی اور ضلع کرم آئے روز عسکریت پسندوں کا نشانہ بنتا تھا۔
طوری کہنے لگے ’بڑی مشکل اور بڑی قربانیوں سے امن قائم ہوا تھا، نہیں چاہتے کہ یہاں کے کشیدہ حالات کا فائدہ ٹی ٹی پی یا سرحد پار کے شر پسند عناصر اٹھائیں۔ریاض علی طوری سمجھتے ہیں کہ ایک ہائی لیول کا لینڈ کمیشن ہی معاملہ ہمیشہ کے لیے حل کر سکتا ہے، جسے قبائل کی طرف سے ’توئے وڑے واک‘ یعنی اندھا اعتماد حاصل ہو۔ یہ کمیشن علاقائی رسم و رواج اور حکومتی ریکارڈ کے مطابق فیصلہ کرے۔
کرم کے زمینی تنازعے کا مستقل حل ناممکن نہیں۔ جہاں فریقین واقعی مسئلے کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں میں خود شامل ہوں وہاں مسئلہ حل کرنا مشکل سہی ناممکن ہرگز نہیں۔ لیکن اسلام آباد، پنڈی، پشاور اور کرم کی ضلعی انتظامیہ میں بیٹھے فیصلہ ساز حکام کو بھی اس ضمن میں ذاتی دلچسپی لینا ہو گی۔
اس بار ضلع کرم میں خوں ریزی کچھ اور بھی پریشان کن ہے کیونکہ بس ایک ہفتے میں محرم کے مہینے کی آمد ہے اور افواہ ساز و فتنہ پرور فیکٹریاں خوب زور و شور سے مصروف ہیں۔
صورت حال کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ سکیورٹی فورسز اس حساس خطے میں کالعدم تنظیموں، فرقہ پرست، عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھیں۔
اگر ان عناصر پر قابو نہ پایا گیا اور معاملے کا مستقل حل نہ نکلا تو پارہ چنار فرقہ واریت کا وہ پریشر بٹن ثابت ہو گا کہ شرپسند جب چاہیں فسادات کو ہوا دے سکتے ہیں۔
واپس کریں