دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ماڈرن حسیات اور سماجی تبدیلی
طاہر راجپوت
طاہر راجپوت
رات کو چھوٹی سی بحث چل رہی تھی "ماڈرن سینسیبلٹی" یعنی جدید حسیت یا حساسیت بھی اسے که لیں۔ یہ حس یا حساسیت ماڈرن کیوں ہے۔؟
دیکھیں "ماڈرن دور" سے پہلے انسان کچھ چیزوں کے بارے میں اتنا حساس نہیں تھا، آپ بے حس تو نہیں که سکتے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک قصائی کی حس عام انسانوں سے مختلف ہے۔ کوئی حساس بندہ تو اسے ظالم سمجھے گا لیکن اس کے لئے یہ محض روزمرہ کا کام ہے۔ اسی طرح ادب میں ماڈرن دور سے پہلے کچھ موضوعات حساس نہیں سمجھے جاتے تھے۔ جیسے؛ فیمینزم، ماحول، ٹرانس، شہری آزادی، فریڈم آف سپیچ، فرد کی آزادی، شہری زندگی کا جو بے حد پھیلائو ہوا اور اس سے جڑے جتنے بھی مسائل اور انسانی نفسیات پر اس کے اثرات، عقائد کے حوالے سے نئی سوچ اور ڈیبیٹس، انسان کی rootlessness اور کائنات میں اس کا مقام، سائنسی علوم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی میٹریل ازم، یہ سب چیزیں مل کر ایک نئی سوچ اور نفسیات بناتی ہیں جسے ہم ایک "نئی حس" کہتے ہیں۔
اب ماڈرن دور کا انسان ان حوالوں سے ایک نئی حس بیدار کر چکا ہے اور بہت emotional ہے۔ صاف ظاہر ہے لٹریچر بھی اسی طرز پہ لکھا جاۓ گا کیوں ادب انسانی زندگی اور سوچ کا پرتو ہے۔ اس لئے ماڈرن لٹریچر کے بھی تھیمز انہی میں سے ہیں، اور ہاں ماڈرن تھیمز بیان کرنے کے لئے اور نئی حسیات کی نمائندگی کے لئے ادب میں "فورم" کو بھی توڑا گیا ہے۔ اب یہ stream of conciousness پہ مبنی ہے، fragmented ہے اور زبان کے ساتھ ایک طرح کی playfulness ہے۔
یعنی آپ دیکھیں یہاں سب کچھ بدل چکا ہے۔ انسان اس کا ماحول، سماج، نفسیات، نظریہ اور ادبی تکنیکس۔ یہ ادب' پوری دنیا میں آزاد نثری اور فکشن میں لکھا گیا ہے، کیوں کہ ان سب موضوعات کے لئے پابند نظم موزوں فارمیٹ نہیں تھا۔ فکشن اور شاعری میں حد بندی قریب قریب ختم ہو رہی ہے، یا دھندھلا چکی ہے اور زبان' کو ماڈرن یعنی موجودہ دور کی بول چال اور محاورے کے قریب کیا گیا ہے۔
انگلش ادب اور یورپیین کانٹیننٹل لٹریچر میں تو یہ ٹرینڈز پوسٹ وار ایرا سے چل رہے ہیں اور اب پوسٹ ماڈرن ازم، ساختیات، فیمینزم، ماحول دوست ادب، ڈیجیٹل ادب اور speculative literature جیسی اصطلاحات موجودہ ادبی ٹرینڈز کو بیان کرنے کے لئے چل رہی ہیں۔ لیکن کیوں کہ یہاں ہر شے یہاں سو دو سو سال بعد آتی ہے اس لئے ہمیں ان کی سمجھ نہیں آ رہی یا پھر ہم اس کی قبولیت سے انکاری ہیں جیسے کہ ہم ہمیشہ نئی چیز کو قبول کرنے سے کتراتے ہیں۔
اب میں دیکھتا ہوں اچھے بھلے ایکٹوسٹس لوگ سماج کو تو بدلنا چاہتے ہیں لیکن ادب اور ادبی ٹرینڈز کو بدلنا نہیں چاہتے، جو کہ بہت عجیب اور weird ہے میرے لئے۔ جب تک ادبی خیالات تبدیل نہیں ہوں گے سماج میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اس لئے ادب کے ذریعے لوگوں میں "نئی ادبی حس" بیدار کرنی چاہیے تا کہ وہ کسی سماجی تبدیلی کے لئے بھی خود کو تیار کر سکیں۔
واپس کریں