انعام الحسن کاشمیری
مودی جی کے فاشزم کا دیو اپنے خون آشام جبڑے کھولے نوکیلے دانتوں کی نمائش کرتے، تیزدھاری ناخنوں کو آگے بڑھاتے معصوموں کا خون پینے کے جنون میں مبتلا ہے۔ اس کی مجنونانہ حرکات کوئی نئی بات نہیں۔ اب کوئی دن نہیں جاتا جب مودی جی ایک نئی بلائے ناگہانی اپنے ہم وطنوں، اپنے پڑوسیوں اور امن و سکون کی مالا جپنے والوں پر نازل کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ہم ماضی نہیں بھولے۔ ہر چند ماہ بعد ایک دلدوز سانحہ، ایک نیا المیہ، دنیا کو جنگ و خون کی بھٹی میں جھونک دینے والا ایک خونیں اقدام، مودی کی پٹاری میں سے برآمد ہوتا ہے اور امن و سکون کو تباہ وبرباد کر ڈالتاہے۔ کیا مودی کے منہ کو خون لگ گیا ہے، جس کی پیاس انھیں ہر کچھ عرصے بعد بھڑک اٹھتی ہے اور اس تشنگی کے خاتمے کے لیے پھر ایک ساتھ کئی معصوموں کو بھینٹ چڑھا دیا جاتاہے۔؟ یہ سچ ہے اور ماضی کو کھنگالیں تو اس سوال کا جواب بڑی تلخی اور کلیجوں کو شق کردینے والے انداز میں ہمارے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ مودی جو ”شائننگ انڈیا“ اور ”ایشین ٹائیگر“ کی اصطلاحات کے ساتھ بھارت کو وینس اور مریخ سے پرے لے جانا چاہتے ہیں، تو انھیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ترقی کے زینے انسانی کھوپڑیوں سے نہیں بنائے جاتے۔ ڈرامے اور حقیقت میں فرق ظاہر ہوتا ہے۔ جس دوران یہ سب کچھ چل رہا ہو تب بھی دونوں میں فرق بے حد نمایاں ہوتا ہے۔ حقیقی واقعات کا ڈائریکٹر چونکہ کوئی انسان نہیں ہوتا، اس لیے اس میں کسی غلطی کا امکان بھی نہیں ہوتا کہ ایسے نہیں ایسا ہونا چاہیے تھا یا ایسا ہو ا ہے جبکہ ڈرامے کے قارئین بھی بتادیتے ہیں کہ فلاں منظر کی درست عکاسی نہیں کی گئی اور ہدایت کار نے فلاں موقع پر سخت غیرذمہ داری، لاپرواہی یا نالائقی سے کام لیا۔ چنانچہ جب ہم ان ڈراموں کا تنقیدی جائزہ لیں، تو ان میں بے شمار خامیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ظاہر ہے جب سکرپٹ ماضی کے ڈراموں کو سامنے رکھ کر بنایاجائے گا تو ان میں ایک تو مماثلت ہوگی، دوسرا نئی غلطی کا جنم ضرور ہوگا۔ یہی کچھ پہلگام میں بھی ہوا۔ اس سے پہلے ہم مقبوضہ جموں وکشمیر میں چٹی سنگھ پورہ واقعہ کو لیتے ہیں جب 20مارچ2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے دوران 35سکھوں کا قتل عام کیا گیا۔ اس واقعہ کا فائدہ بھارت کو ہوا کہ وہ امریکی صدر کی سامنے مظلوم بن گیا اور یوں بڑے مفادات سمیٹے جس میں سب سے بڑا فائدہ امریکہ کی نظروں میں پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک ثابت کرنا تھا۔سکھ رہنماؤں نے بھارتی حکومت کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بعد کے واقعات اور اب حال ہی میں ایک بھارتی جنرل نے بھی اس کی تصدیق کردی کہ واقعہ میں خود بھارتی فوج ملوث تھی۔
احمد آبادڈرامے کو دیکھتے ہیں۔ یہ 27فروری2002کو سٹیج کیا گیا۔ تب مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ گوردھرا ریلوے سٹیشن پر ایودھیا سے احمد آباد آنے والی سابرمتی ریل کچھ وقت کے لیے آکررکی۔ اسی دوران ایک بوگی کو شرپسندوں نے کھڑکیاں، دروازے بند کرکے آگ لگادی جس کے نتیجے میں 60کے لگ بھگ ہندو مسافر جل کر کوئلہ بن گئے۔ بس پھر کیا تھا، گجرات کے ہندوؤں نے ان کی نعشیں اٹھائیں، اور احمد آباد شہر میں ان کی نمائش شروع کردی۔ مقصد تھا زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کو مشتعل کرنا۔ تب سوشل میڈیا کا دور نہ تھا اس لیے عملی طور پر ان نعشوں کی نمائش ضروری تھی تاکہ جذبات خوب بھڑکیں۔ چنانچہ اس ڈرامے کے اختتام پر کوئی تین ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ ان کی املاک، جائیدادوں، کاروبار وغیرہ کو سخت نقصان پہنچایاگیا اور سینکڑوں خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ اب کوئی اس ڈرامے کے ہدایت کار سے یہ پوچھے کہ جناب!گجرات کے مسلمانوں کو بھلا کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ ریل پر حملہ کرکے ہندورضاکاروں کو جلا کر بھسم کرڈالتے جب کہ ان کا کوئی ایسا تنازع بھی نہ تھا؟ اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو دوسرا سوال یہ بنتا ہے کہ پھر تو حملہ آور مسلمان یقینا اس قدر طاقت میں تھے اورواقعہ کے مابعد اثرات سے نمٹنے کے لیے انھوں نے پہلے سے پیش بندی اور تیاری بھی کررکھی ہوگی تو پھر انھوں نے اس تیاری کا فائدہ کیوں نہ اٹھایا اور حملہ آور ہندوؤں کا تن کر مقابلہ کیوں نہ کیا؟
گجرات سانحہ کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوا اور سب سے زیادہ فائدہ مودی کو، جو جلد ہی پورے بھارت میں مشہور ہوگئے اور پھر ان کا اگلا قدم وزارت عظمیٰ کی مسند پر تھا۔ اس کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں بارہ مولا، اوڑی، سامبا سمیت بھارت میں پارلیمنٹ پر حملہ، بمبئی حملے اور اجمل قصاب وغیرہ، سمجھوتہ ایکسپریس، پٹھانکوٹ وغیرہ کے فالس فلیگ آپریشنز کے نتائج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب سٹیج ڈرامے تھے اور ان کے ہدایت کار خود بھارتی حکمران کیونکہ ان واقعات سے پاکستان پر وقتی طور پر سخت دباؤ پڑا۔ عالمی برادری میں اس کی ساکھ کو بھارتی پراپیگنڈہ نے سخت متاثر کیا۔ کئی مواقع پر دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ جانے کا خطرہ بھی پیدا ہوا۔ اب کوئی ملک اپنی سلامتی کو یوں خطرے میں ہرگز ڈالنے کا قصد ہرگز نہیں کرسکتا۔ ان تمام ڈراموں کے نتائج وقتی طور پر خود بھارت کے حق میں ظاہر ہوئے۔ پہلگام واقعہ یا ڈرامہ کے نتائج بھی اس وقت بھارت کے حق میں نمایاں ہورہے ہیں لیکن جوں جوں وقت گزررہاہے، صورت حال بدل رہی ہے۔ اب ناظرین صاف طور پر دیکھ رہے ہیں، کہ نتائج، نقائص، وقت، عکس بندی اور منظرنگاری کے اعتبار سے یہ حقیقی نہیں بلکہ سٹیج ڈرامہ ہے۔ ذرائع ابلاغ خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے اس ڈرامے کی بے شمار ”خوبیاں“ سامنے آچکی ہیں۔ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو جنگ کی بھٹی میں جھونک ڈالے، لیکن پاکستان کی جانب سے حوصلے اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کے باعث بھارت کی یہ خواہش پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ اس تمام واقعہ کا البتہ ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ دنیا کی نظروں میں کشمیر ایشو ایک بار پھر پوری طرح نمایاں ہوا ہے۔ کشمیری عوام نے اس واقعہ میں بھارت کو ملوث قرار دیا ہے۔ انڈین میڈیا کے اینکرز کے باربار پاکستان کو ملوث قرار دیے جانے کے سوالات کے جوابات میں بڑی جرأت مندی، بہادری اور استقلال کے ساتھ پاکستان کی وکالت میں کھڑے رہے۔ بندوقوں کے سائے میں ایسی وکالت شاید ہی دنیا نے کہیں اور دیکھی ہو جو اس وقت مقبوضہ جموں وکشمیر میں پاکستان کے حق میں ہورہی ہے۔ کسی ایک ویڈیو میں بھی کسی نے بھارتی اینکروں کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی۔ بھارت کو اسی سے سبق سیکھ لینا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ جس تحریک کو دبانے اور جس قوم کو ہرانے کے لیے وہ فالس فلیگ آپریشنز کی آڑ میں ظلم وجبر کا ہر حربہ آزما چکا ہے، اس میں اُسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔
واپس کریں