دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
راجناتھ سنگھ کی گیدڑبھبکیاں اور فاروق عبداللہ کا مشورہ
انعام الحسن کاشمیری
انعام الحسن کاشمیری
ہمسائیوں سے اچھے تعلقات، ہر مہذب قوم اور ملک کی اہم پہچان ہوتی ہے۔ کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت پیش آئے تو محض یہ دیکھ لیجیے کہ ہمسائیوں سے تعلقات کس نوعیت کے ہیں؟ اس کی بنیاد پر فیصلہ دے دیجیے۔ اپنے منہ میاں مٹھوں بننے والوں نے اگرچہ کچھ وقت کے لیے پراپیگنڈہ کا سہارا لے کرخود کو بہترین، مہذب، شائستہ اور اس نوع کے دیگر کمالات سے آراستہ و پیراستہ کیے جانے کی سبیل تو خوب کرلی لیکن پھر دھیرے دھیرے چہرے پر سجا نقاب کھسکنے لگا، رخساروں پر جمی قلعی کھرچی جانے لگی اور آنکھوں میں حیا وشرم کی سرخ ڈوریاں خون آشام بلاؤں کا روپ دھارنے لگیں۔ یہی کچھ ہمارا پڑوسی ملک بھارت کررہاہے اور اُس کے ضمن میں ہم ایک اچھے پڑوسی کے تمام ترخصائل و شمائل کے بالکل برعکس ایک ایسے پڑوسی کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہیں، جس کی روش ہمہ وقت طوفان برپاکیے جانے کی رہی ہے۔ سرحدوں پر بلااشتعال کارروائیوں سے لے کر، ملک کی سلامتی کو براہ راست پامال کرتے ہوئے اندر تک گھس آنا اور پھر دہشت گردی کی وارداتیں، جاسوسی کی گھاتیں اور اس نوعیت کی دیگر کارروائیاں، یہ سب وہ گھناؤنے امر ہیں جن سے دنیا کا ایک بڑا حصہ محفوظ و مامون چلا آرہاہے کہ ان کے پڑوسیوں کی تمام تر توجہ صرف اپنی ترقی وعروج پر ہے، وہ اپنے ہمسائے کی ترقی و خوشحالی سے جلنے، کڑھنے اور تلملانے کے بجائے اپنی متعین کردہ راہ پر ناک کی سیدھ میں چلے جارہے ہیں۔ اس طرح وہ خود بھی کسی عذاب، فتنے اور طوفان سے محفوظ ہیں اور ان کے ہمسائے بھی۔
بھارت میں جاری لوک سبھا کے حالیہ انتخابات کے دوران بی جے پی کے رہنماؤں نے اپنی جیت کو یقینی بنانے اور ووٹروں کا اعتماد جیتنے کے لیے جس طرح کی گمراہ کن بیان بازی پاکستان کے خلاف شروع کررکھی ہے، اس کاجواب اسے اگرچہ پاکستان کی جانب سے بروقت دیاجاتاہے رہاہے لیکن شیخ عبداللہ کے بیٹے نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے بھارتی وزیردفاع راجناتھ سنگھ کو جس طرح کا کرارا، پیٹ میں مروڑاور منہ میں گھنگھنیاں ڈالنے جیسا جو جواب دیا ہے، اس نے بھارتی سورماؤں کے جسموں میں آگ لگادی ہے، جس کی تپش او ر حدت ہم بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔
وزیردفاع راجناتھ سنگھ گزشتہ ماہ سے مسلسل پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کیے جارہے ہیں۔ انھوں نے انڈین نیوز نیٹ ورک 18کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ”اگر کوئی دہشت گرد بھارت میں بزدلانہ کارروائی کرنے کے بعد پاکستان بھاگ جاتا ہے، تو اسے پاکستان میں گھس کر ماریں گے“ راجناتھ کے اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے پاکستان نے اسے اپنی سلامتی و خودمختاری پر حملہ قرار دیا اور راجناتھ سمیت اس نوعیت کی سوچ و ذہنیت رکھنے والوں پر بخوبی آشکار کیا کہ پاکستان نے نہ کبھی کسی دوسرے کی سلامتی و خودمختاری کو زک پہنچانے کی کوشش کی ہے اور نہ وہ اپنے متعلق کسی کو ایسی کوشش کرنے کی اجازت دے گا۔ راجناتھ کایہی وہ بیان تھا جس کے جواب میں فاروق عبداللہ نے اسے اصل اوقات یاد دلاتے ہوئے باور کروایا کہ ”پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جس نے ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں پہن رکھیں،بھارتی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ پاکستان اور خاص طور پر آزاد کشمیر کے بارے میں بیانات سے احتراز برتیں کیونکہ اس کے نہایت بھیانک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں“
راجناتھ نے یہ جو کچھ بھی کہا وہ محض انٹرویو میں سوال کا جواب یا محض ایک سیاسی بیان نہ تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اول دن ہی سے پاکستان کے بارے میں اسی طرح کی سوچ و فکر کا داعی چلا آرہاہے۔برطانوی اخبار دی گارڈین نے اسی حوالے سے گزشتہ ماہ ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بھارت پر براہ راست الزامات کیے تھے کہ وہ اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل کے لیے دوسرے ممالک کی خودمختاری اور سلامتی کی دھجیاں اڑانے سے بھی باز نہیں آتا۔ اس کی سرگرمیوں کا دائرہ نہایت پرامن ملک کینیڈا تک پھیل چکاہے، پاکستان اس کی کارروائیوں کا ہمیشہ سے نشانہ بنتا چلا آیاہے۔
راجناتھ سنگھ کا یہ بیان دراصل بھارت کی لوک سبھا کے عام انتخابات کے موقع پر سامنے آیا۔ اس کے بعد بھی صرف وزیردفاع ہی نہیں، وزیرداخلہ سمیت تمام مرکزی وصوبائی وزراء یہاں تک کہ خود مودی بھی اس طرح کی بیان بازی میں بخوبی شریک رہے۔ چنانچہ انتخابی عمل کے آغاز ہی میں مودی نے ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے بھارت کی طاقت اور ترقی کا اظہار اس جملے سے کیا کہ ”آج کا بھارت حملہ کرنے کے لیے دشمن کے علاقے میں جاتا ہے“ٌ
مودی کا یہ بیان دراصل 2019ء کے عام انتخابات سے قبل فروری میں بالاکوٹ پر سرجیکل سٹرائیکس کے حوالے سے تھا۔ یہ سرجیکل سٹرائیکس اگرچہ اس کی جانب سے فرضی دعوے تھے لیکن بعد میں جب اس کے طیاروں نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی تو پاکستانی فضائیہ نے انھیں لائن آف کنٹرول عبور کرکے گرادیا تھا جس پر بھارت کو پوری دنیا میں نہایت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ مودی نے یہ تو کہہ دیا کہ بھارت حملہ کرنے کے لیے دشمن کے علاقے میں گھس جاتاہے، لیکن وہ یہ کہنے کی جرأت نہ کرپائے کہ جواب میں پھر خفت، ہزیمت اور شرمندگی بھی اٹھانا پڑتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایسے کرارے اور صدیوں یاد رکھے جانے والے ردعمل کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ حالیہ انتخابات سے قبل بھارت نے اس طرح کی کوئی حرکت کرنے کے بجائے خالی خولی بیانات ہی پر اکتفا کیا ہے۔ تاہم گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے علاقے پونچھ میں بھارتی فضائیہ کے ایک قافلے پر حملے میں 5اہلکار شدیدزخمی ہوگئے، جن میں سے ایک بعد میں ہلاک ہوگیا۔ اس حملے کے بارے میں بھارتی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ چرنجیت سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ بی جے پی نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے کروایا ہے اور یہ کہ بی جے پی ہمیشہ سے ایسا ہی کرتی آئی ہے۔
حالیہ انتخابات کے پہلے مرحلے، پھر دوسرے مرحلے اور گزشتہ روز 7مئی کو تیسرے مرحلے کے آغاز پر ان نام نہاد سورماؤں کے اشتعال انگیز بیانات مسلسل جاری رہے تاکہ ہندوانتہاپسندووٹرز کی ہمدردیاں سمیٹی جاسکیں۔ انتخابات جیتنے اور ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے ہرسیاسی پارٹی اپنے تئیں پالیسیاں بناتی اور ان پر عمل کرتی ہے، لیکن ایسے اقدامات جو کسی دوسرے کی سلامتی و داخلی خودمختاری کو چیلنج کریں، اس کی اجازت تو کوئی بھی نہیں دیتا۔ مودی اگر شائننگ انڈیا کے نعرے کے ساتھ بھارت پر تاحیات حکومت کرنے کے متمنی ہیں تو انھیں ایسے نعرے بھی پھر عام کرنے چاہئیں جن میں دوسروں خاص طور پر ہمسایوں کے لیے احترام کا جذبہ موجزن ہو۔ مودی اپنی گلی میں تو شیر ہوسکتے ہیں لیکن بات وہی فاروق عبداللہ والی پھر سامنے آجاتی ہے کہ پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ حقیقت بھی یہی ہے، کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت محض دنیا کو دکھانے کے لیے حاصل نہیں کی اس کا یقینا کوئی اعلیٰ و ارفع مقصد ہے اور یہ مقصد صرف دشمن کو خبردار کرنا ہے کہ وہ کچھ کرنے سے قبل ہزار مرتبہ سوچے اور پھر دم دباکر اپنے بل میں گھس کر بیٹھ جائے۔ بھڑکیں مارنے اور جذبات برانگیختہ کرنے والے اپنا نقصان تو کرتے ہیں،ساتھ میں اپنی قوم اور اپنے ملک کا بھی کباڑا کرتے ہیں۔ ان کی ایسی گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والے کوئی اور لوگ ہوں گے۔
واپس کریں