دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نو مئی اور اسٹیبلشمنٹ ۔ اظہر سید
اظہر سید
اظہر سید
دینا کی کوئی مہذب ریاست فوج اور اسکی تنصیبات پر حملہ کی اجازت نہیں دیتی اور ایسی ہر کوشش پوری ریاستی طاقت سے ناکام بنا دیتی ہے ۔سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد نو مئی دوسرا موقع تھا جب عام شہریوں نے فوج پر دشمن فوج سمجھ کر حملہ کیا ۔سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت صرف بنگالیوں نے فوج کو دشمن سمجھا لیکن نو مئی کو خیبر پختونخوا ،سندھ اور پنجاب میں بھی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ۔
نو مئی اسٹیبلشمنٹ کی غلطیوں کی ایک کلاسیکل مثال ہے جس کے اثرات معاشرے کی تقسیم کی صورت سامنے آئے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ جتنا بھی کوشش کر لے نو مئی کے اثرات کسی حتمی نتیجہ تک معاشرے میں تقسیم جاری رکھیں گے اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مسلسل کمزور ہوتی رہے گی ۔ نو مئی کے واقعات اسٹیبلشمنٹ کے تضادات کی بھی ایک کلاسیکل مثال ہیں ۔
جب تک 2018 کے ناکام تجربہ کے تخلیق کار سزا نہیں پائیں گے اسٹیبلشمنٹ کٹہرے میں رہے گی اور اپنے تضادات کی جوابدہ رہے گی ۔جو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نوسر باز کی کال پر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے نکلے انہیں سزا دینے سے معاملہ طے نہیں ہو گا جب تک ففتھ جنریشن وار کے نام پر نوجوان نسل کو گمراہ کرنے اور نوسر باز کا مرید بنانے والے تخلیق کار جنرل اپنی غلطی کی سزا نہیں پائیں گے اس وقت تک معاملات نہیں سنبھالے جا سکتے ۔
صرف زبان سے خود کو مسلمان کہہ دینا کافی نہیں ہوتا جب تک اسلام کے باقی لوازمات پورے نہیں کئے جاتے ۔ صرف یہ شکوہ کرنے سے بات نہیں بنے گی عدالتیں نو مئی کے ملزمان کو ریلیف دی رہی ہیں ۔غیر جانبداری ثابت کرنا ہے تو کھل کر غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا اور بتانا ہو گا ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کونسے جج کس طرح تعینات کروائے گئے ۔میڈیائی اثاثوں کے متعلق بھی حقائق سامنے رکھنا ہونگے ۔ یا تو 2018 کی غلطی کے اعتراف اور پسپائی سے پہلے پروفیشنل فوج کی طرح اثاثے بھی تباہ کرتے تاکہ دشمنوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں ۔ اگر غلطی کی ۔ پسپائی سے پہلے اثاثے تباہ نہیں کئے تو پھر اعتراف کریں ۔
ہم سمجھتے ہیں نو مئی میں ملوث عام پاکستانی معصوم ہیں ۔انہیں پہلے ففتھ جنریشن کے نام پر گمراہ کیا گیا اور جب وہ گمراہ ہو گئے انہیں ملک دشمن سمجھ کر پکڑ لیا ۔
کوئی قوم اپنے نوجوانوں کے ساتھ نہیں کھیلتی لیکن جنرل باجوہ اور ہمنوا جنرل ففتھ جنریشن وار کے نام پر نوجوانوں کے ساتھ کھیلے ۔ڈی چوک دھرنہ سے فیض آباد دھرنہ تک لبرل اور مذہبی دونوں طرح کی افرادی قوت استمال کی گئی ۔
پولیس والے بھی وردی پوش ہیں ۔انہیں ماریں پڑیں ۔وہ قتل کئے گئے ۔زخمی اور معذور ہوئے اور اس کے زمہ دار بھی وہی تخلیق کار ہیں جنہوں نے سیاسی مقاصد کیلئے دھرنے کروائے اور ریاست کی رٹ مٹی میں ملا کر رکھ دی ۔
واپسی کا سفر پہلے کی طرح ممکن نہیں ۔ اب جوابدہی کے بغیر آگے بڑھنا بھی ممکن نہیں ۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے سے تیزی سے بڑھتا ہوا طوفان نہیں تھم سکتا ۔
نو مئی کے کرداروں کو ریلیف دینے والے جج طاقتور نہیں ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کمزور ہوئی ہے ۔حقیقت کا جتنی جلد ادراک کر لیا جائے ملک اور خود اسٹیبلشمنٹ کیلئے بہتر ہے ۔
واپس کریں