دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن
 ردا ایمان
ردا ایمان
جموں و کشمیر کے شمالی ضلع کپواڑہ کے کنان اور پوش پورہ علاقوں میں 33 برس قبل یعنی 23 اور 24 فروری 1991 کی درمیانی شب کے دوران فوج کی چار راجپوتانہ رائفلز کے اہلکاروں نے سرچ آپریشن کے دوران کنان اور پوش پورہ گاؤں کو محاصرے میں لے لیا تھا اور 100 سے ذائد خواتین کے ساتھ اجتماعی طور ور پر جنسی زیادتیوں کا ارتکاب کیا تھا۔ 23 فروری 1991 کی رات کو بھارتی فوج کی راجپوتانہ رائفلز نے سرچ آپریشن کے دوران دونوں علاقوں کو محاصرے میں لیا اور گھر کے تمام مردں کو کھیتوں میں لے جا کر گھیر لیا گیا اور خواتین کو گھروں میں بند کر کے ان کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا۔
ان خواتین کے ساتھ بھارتی فوج نے جانورں جیسا سلوک کیا۔ جس میں میں شادی شدہ ٬ غیر شادی شدہ٬ بچیاں٬ بزرگ عورتیں شامل تھیں نہ ہی بچیوں اور بزرگوں کی عمروں کا لحاظ کیا گیا اتنا ہی نہیں مردوں کے ساتھ بھی اس رات جسمانی تشدد ہوا۔ تمام عورتیں 33 سال گزرنے کے بعد بھی آج انصاف کی منتظر ہیں۔ بھارتی افواج نے ان تمام الزامات کی تردید کی اور کہا یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں لیکن 2013 میں مصنفین نتاشا راتھر اور افرا بٹ سمیت 50 خواتین کے ایک گروپ نے اس معاملے کی تحقیقات کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے درخواست کی۔
اس کے بعد دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا اور کشمیر ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ متاثرین کو معاوضہ ادا کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے یہ تو حکم دے دیا کہ ان کا معاوضہ ادا کر دیا جائے مگر وہ مالی معاوضہ ان تمام بچیوں کی زندگیوں کو واپس نہیں لا سکتا نہ ہی ان ماؤں کو جنہیں ان کی اولاد کے سامنے جنسی ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
اس کے بعد 5 کشمیری خواتین کے ایک گروپ نے اس دردناک سانحہ کے اوپر ایک کتاب بھی لکھی جو کنان اور پوش پورہ میں خواتین کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کی روداد پر مبنی ہے
واپس کریں