دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دہلی چلو کسان مارچ ۔ردا ایمان
 ردا ایمان
ردا ایمان
دہلی چلو مارچ کے نام سے دہلی میں ایک ریلی نکالی گئی جس میں 15 ہزار سے 25 ہزار تک کسان شامل ہیں جو کسانوں سے متعلق قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے دہلی کی سرحدوں پر تقریباً دو سال پہلے بھی کئی مہینوں تک احتجاج کیا تھا۔ کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کیلئے انتظامیہ نے متعدد مقامات پر بیرئیر لگائے ہیں اور ایک ماہ کیلئے کرفیو بھی نافذ کر دیا یے۔ ان اقدامات کی وجہ سے دہلی اور قریبی علاقوں میں شدید ٹریفک جام ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ احتجاج روکنے کیلئے انتظامیہ ان پر دباؤ ڈال رہی ہے لیکن وہ دہلی جانے کیلئے پُرعزم ہیں۔ کسانوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان صورت حال شدت اختیار کر گئی ہے جبکہ وفاقی حکومت نے ایک مرتبہ پھر کسانوں کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ کسانوں کا سب سے اہم مطالبہ ہے کہ حکومت فصلوں کیلیے کم سے کم امدادی قیمت کی ضمانت کیلئے ایک قانون وضع کرے۔ ریاست پنجاب کی سرحد کے قریب کئی مقامات پر کسانوں اور ہریانہ پولیس کے درمیان جھڑپوں کے واقعات پیش آئے ہیں۔
ریاست ہریانہ اور پنجاب کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے مظاہرین پر پولیس نے ڈرونز کے ذریعے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور واٹر کیننز کا بھی استعمال کیا۔ جھڑپوں میں کئی کسان زخمی ہوئے ہیں جس کے بعد ہریانہ کی سرحد کے قریبی علاقوں میں پنجاب حکومت نے ہسپتالوں میں الرٹ جاری کر دیا ہے۔ اس کی بنا پر حکومت نے سات اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ سروس بند کر دی ۔ستمبر 2020 میں حکومت نے زراعت سے متعلق تین متنازع قوانین کی منظوری دی تھی جن کی مخالفت کرتے ہوئے کئی ریاستوں میں کسانوں نے احتجاج کیا جو تقریباً ایک سال تک جاری رہا
کسانوں کے پرزور اصرار پر نومبر 2021 میں وزیراعظم نریندر مودی نے قوانین واپس لینے کا وعدہ کیا تھا۔
حکومت کی جانب سے قوانین کو منسوخ کرنے پر رضامندی کے بعد بھی کسانوں نے اپنا احتجاج جاری رکھا تھا۔ مظاہروں کے دوران کئی افراد کی ہلاکت کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا تھا۔
مودی حکومت کے منتازع زرعی اصلاحات متعارف کروانے کے تین سال بعد ایک مرتبہ پھر کسانوں نے ’دہلی چلو‘ کا نعرہ لگایا ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کے اہم مطالبات ابھی تک پورے نہیں ہے جن میں سے ایک فصلوں کے لیے کم سے کم امدادی قیمت وضع کرنا ہے۔
واپس کریں