دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"پولیس میں اخلاقیات کی کمی یا ماحول کا اثر"
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
ہمارا ایک کالج دور کا کلاس فیلو مطیع اللہ خان ہے۔ جب ہم فرسٹ ائیر میں پڑھتے تھے تو اس وقت ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگنے سے نچلے دھڑ سے معذور ہو گیا تھا لیکن دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی معذوری کو اپنے راستہ میں آڑے نہیں آنے دیتے اور مطیع اللہ خان بھی اُنہی لوگوں میں سے ایک تھا جس نے معذوروں کی ویل چیئر پر بیٹھ کر ایف اے، بی اے، بی ایڈ، اور پھر ڈبل ماسٹر کیا اور معلم کا پیشہ اختیار کر لیا۔ استاد بننے کے بعد اس نے ایک رسمی استاد ہونے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جس سکول میں بھی رہا اس سکول کا سب سے اچھا استاد ہونے کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اپنے تیس سالہ معلمی کے دور میں اس نے کئی اچھے طالب علم پیدا کئے جو آجکل کئی اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ گذشتہ دنوں مطیع اللہ خان کا کسی کام کے سلسلہ میں تھانہ کمرمشانی میں جانا ہوا اور وہ اپنی معذوروں والی موٹر سائیکل ریڑھی پر پہنچے تو وہاں تھانہ کے صحن میں حسب روایت ایس ایچ او صاحب نے وائسرائے کی طرح کچہری لگائی ہوئی تھی۔ عوامی ٹیکس سے تنخواہ وصول کرنے والے ایس ایچ او صاحب کرسی پر بَرا جمان تھے جبکہ تنخواہ دینے والے لوگ سامنے کھڑے ہوئے تھے۔
اس صورتحال میں استادِ محترم صاحب بھی مابدولت کے سامنے پیش ہو گئے اور جان کی امان کے عوض اپنی دُکھ بھری کہانی سنانے کی کوشش کی لیکن مابدولت نے سب سے پہلے تو حکم صادر فرما دیا کہ بات کرنے سے پہلے اپنی ویل چئیر باہر موٹر سٹینڈ پر پارک کر کے آئیں۔ وائسرائے کا یہ حکم نامہ سنتے ہی استاد جی نے اپنی معذور ٹانگیں ایس ایچ او صاحب کو دِکھائیں اور عرض کی کہ میری ٹانگیں تو اپنی جگہ سے ہِل نہیں سکتیں تو میں سٹینڈ سے یہاں تک پہنچوں گا کیسے؟ لیکن ایس ایچ او صاحب اپنی ضِد پر اڑے رہے اور معذور معلم واپس چلا گیا حالانکہ سابق ڈی پی او میانوالی حسن اسد علوی نے ضلع بھر کے تمام تھانہ جات کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس میں احکامات دئیے گئے تھے کہ تھانہ میں آنے والے ہر معلم کو نہ صرف بیٹھنے کیلئے کرسی مہیا کی جائے بلکہ ان کو سلوٹ بھی کیا جائے اسی طرح گذشتہ دنوں میرا ذاتی طور پر تھانہ عیسیٰ خیل میں تحصیل عیسیٰ خیل کے ایک بہت معروف سرجن کے ساتھ جانا ہوا اور ہم دونوں ایس ایچ او تھانہ عیسیٰ خیل کے سامنے سائل کے طور پر بیٹھ گئے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کا تعارف کرایا اور ڈاکٹر صاحب کو درخواست پیش کرنے کو کہا تو اسی اثناء میں ڈاکٹر صاحب کرسی پر بیٹھے ہوئے اپنی ایک ٹانگ دوسری پر رکھ لی اور اپنی دُکھ بھری کہانی سنانے لگے۔ یہ دیکھتے ہی ایک ایف اے پاس ایس ایچ او جو تنخواہ انہی لوگوں کی کمائی سے لیتا ہے اس نے ایف سی پی ایس سرجن کو بڑے تکبرانہ اور ناگوار انداز میں انگلی سے سیدھا بیٹھنے کا اشارہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب کے تو "تراہ" ہی نکل گئے۔ یہ دونوں واقعات اس معاشرے کیلئے نہ کسی بھی اہمیت کے حامل ہیں اور نہ ہی کوئی ملازمین کو پوچھے گا اور نہ ہی ان پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے کیونکہ جب ہم بے روزگار ہوتے ہیں تو ہم انہی دفاتر میں پیش ہوتے وقت اخلاق کے پیکر بھی ہوتے ہیں، انٹرویو کے وقت افسران کے سامنے بھیگی بلی بن کر بیٹھے ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی ہمیں کرسی اور اختیارات ملتے ہیں تو نہ وہ ہماری جھوٹی اخلاقیات رہتی ہے اور نہ ہم آنے والے سائل کو انسان سمجھتے ہیں بلکہ ہمارا رویہ یکدم 190 درجے کی ڈگری حاصل کر لیتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ پولیس کے اس نظام میں سارا قصور پولیس والوں کا بھی نہیں بنتا کیونکہ اصلی انگریزوں سے لے کر پاکستانی انگریزوں تک جب سب نے یہ نظام بنایا ہی عام شہری کو دُبا نے اور ذلیل کرنے کیلئے ہے تو پھر تھانہ میں موجود اہلکاروں نے تو اسی فلسفے پر عمل کرنا ہے کیونکہ پولیس کا نظام 1861ء میں انگریز دور کا بنایا گیا ایک ایسا نظام ہے جو صرف اس وقت ایک مقبوضہ قوم کو سر نیچا کر کے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کئے رکھے۔ اور انگریزوں کے بعد پھر یہی فریضہ پاکستانی انگریزوں بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔
اب کوئی آئی جی ہو یا ڈی پی او جتنا مرضی عام شہری کو اس سلسلہ میں سبز باغ دکھانے اور خیالی پلاؤ پکانے کی کوشش کرے سیدھی اور حقائق پر مبنی بات یہ ہے کہ تھانوں میں جب ایک پڑھے لکھے شخص کی عزت نہیں کی جاتی تو عام اور تعلیم اور قانون سے نابلد شخص کی کتنی غزت افزائی کی جاتی ہو گی اس بات کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں اور کئی مرتبہ آپ یہ تلخ تجربہ کر بھی چکے ہوں گے ضلع میانوالی کے پولیس کے موجودہ کپتان مطیع اللہ خان نوانی ایک سخت گیر اور انصاف پسند پولیس آفیسر ہیں اور کافی عرصہ سے کمیونٹی پولیسنگ لاگو کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن مجبوری ہے کہ ان کی پالیسی لاگو تو اہلکاروں نے ہی کرنی ہے جن کو قابو کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے
واپس کریں