دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان جنگلات کھو رہا ہے
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
جس طرح بحثیت قوم ہم معیشت ، روایات ، اخلاقیات سمیت ہر چیز بہت تیزی کے ساتھ کھو رہے ہیں اسی طرح جنگلات سے بھی ہاتھ دھو رہے ہیں ایک نام نہاد زرعی ملک ہونے کے باجود جس رفتار سے ہم اپنے درخت کاٹ رہے ہیں وہ دن دور نہیں جب ہمارے ملک کی سر زمین اتنی گرم ہو جائے گی کہ جتنی مولانا فضل الرحمان نے بھی نہیں کرنی تھی جب انھوں نے زمین گرم کرنے کی دھمکی دی تھی کیونکہ اس سال ٹمپریچر تقریباً 50 درجہ سنٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے اور آئندہ آنے والے کچھ سالوں میں یہ ٹمپریچر اور اوپر جانے کے واضع آثارِ نظر آ رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا سبب صرف درختوں کی بے ہنگم کٹائی ہے۔ ایک سٹلائٹ سروے کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان کی زمین سٹلائٹ سے دیکھی جائے تو یہاں واضح طور پر جنگلات کی زمین کا ایک بڑا حصہ غائب ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق اس ملک میں 2 ٹریلین سے زیادہ درخت لگانے کی اشد اور فوری ضرورت ہے لیکن اس کے الٹ یہاں سالانہ 67 ہزار 5 سو ایکڑ جنگلات بڑی بے دردی سے کاٹے جا رہے ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان کی سرزمین صرف 2.1 فی صد جنگلات سے ڈھکی ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں پڑوسی بھارت جس کا ہم ہر شعبہ میں مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا 23 فیصد حصہ جنگلات پر متشمل ہے اور وہاں کئی سال سے ہنگامی بنیادوں پر ٹریلین ٹری نامی منصوبہ چل رہا ہے جس کے تحت انڈیا میں درخت لگا کر اسے ماحولیاتی تبدیلی سے بچایا جائے گا۔ محکمہ جنگلات کے حکام کے مطابق پاکستان میں سالانہ 10 کروڑ پودے لگائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے آدھے پودے بھی دو سال کی عمر پوری نہیں کر پاتے اور آپ نے مقامی سطح پر دیکھا ہو گا کہ کمرمشانی سے ترگ اور اسی طرح خدورزئی ، جلالپور سمیت میانوالی بنوں روڈ کے ساتھ کئی سال قبل اور کئی مرتبہ ہزاروں پودے لگائے گئے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی جوانی نہیں دیکھ سکا اور الٹا انگریزوں کے لگائے ہوئے کیکر کے درخت بھی ہم کاٹ کر کھا گئے ہیں۔
پاکستان میں درختوں کی بے دردی سے کٹائی کا سب سے بڑا موجب افغان مہاجرین ہیں جنھوں نے اس ملک کی جہاں معیشت اور اخلاقیات سمیت ہر شعبہ کا بیڑا غرق کیا ہے وہاں اس ملک کے جنگلات پر ہاتھ صاف کرنے کا سبب بھی بنے ہیں کیونکہ لاکھوں افغان مہاجرین لوگوں کا روزگار صرف درخت کاٹ کر لکڑی کے کاروبار سے وابستہ ہے دوسری طرف اس ملک میں درخت صرف کاٹے تو جاتے ہیں لیکن ان کی جگہ پر نئے درخت لگانے کی زحمت نہیں کی جاتی حالانکہ دنیا بھر میں انڈیا سمیت ترقی یافتہ ممالک میں اپنے ذاتی ملکیت درخت بھی اس وقت تک نہیں کاٹے جا سکتے جب تک آپ نے جتنے درخت کاٹنے ہوں اتنے درخت پہلے لگا کر محکمہ جنگلات کو چیک کرانے پڑتے ہیں اور پھر جا کر ان درختوں کو کاٹنے کی اجازت ملتی ہے اس طرح پاکستان کی قومی اسمبلی کو بھی چاہیے کہ جب ایک دن میں سینٹ کے چیئرمین سمیت اعلیٰ عہدیداران کی دائمی سہولیات کا بل متفقہ رائے سے پاس ہو سکتا ہے تو پاکستان میں درخت کاٹنے سے قبل نئے پودے لگانے کا بل پاس کیوں نہیں ہو سکتا؟
آپ تمام قارئین سے بھی درخواست ہے کہ اس تجویز کو حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں تک پہنچانے کیلئے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں کیونکہ ماہرین ماحولیات نے پاکستان میں جنگلات کے کم ہو جانے کو ایک تشویشناک صورتحال قرار دیا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود جنگلات کی زمین کی کمی کے باعث زمین بنجر ہو جانے کے قومی امکانات ہیں۔ اسی طرح جنگلات کی کمی کی صورت حال نے نہ صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش پیدا کر دی ہے جس کے لئے پاکستان میں زیادہ سے زیادہ درختوں کا اُگانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے
واپس کریں