دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مذہبی لبادہ اوڑھے قوم
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کینیڈا میں ایک تبلیغی جماعت کا وفد کینیڈا کے لوگوں کو اسلام اور اخلاقیات کا درس دینے گیا اور ایک دن وہ کینیڈا کی مسجد میں نماز پڑھنے کی غرض سے داخل ہوئے تو انھوں نے اپنے جوتے چوری ہونے کے ڈر سے احتیاطاً اٹھا کر ہاتھ میں لے لئے اور مسجد کے اندر لے گئے، یہ ماجرا دیکھ کر مسجد کے گیٹ پر کھڑے ایک انگریز نے سوال پوچھا کہ وہ جوتے اٹھا کر مسجد کے اندر کیوں لے کر جا رہے ہیں جس پر تبلیغی جماعت کے وفد میں شامل لوگوں نے جواب دیا کہ ان کے ملک میں باہر گیٹ پر پڑے جوتے چوری ہو جاتے ہیں۔ یہ جواب سن کر انگریز نے کہا کہ پھر اپنے ملک میں جا کر ان لوگوں کو تبلیغ کرو جو نماز پڑھنے کے بعد مسجد کے گیٹ سے جوتے بھی چوری کر کے لے جاتے ہیں یہاں تو ایسا کوئی نہیں کرتا۔

ہم نے بحثیت مجموعی مذہب کا ایک لبادہ اوڑھا ہوا ہے مسجدوں میں نمازیں پڑھتے ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا جہان کے نیک پارسا صرف ہم لوگ ہیں جبکہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں عمرہ ادا کرنے والے خواہش مند لاکھوں لوگوں کی رش کی وجہ سے درخواستیں قبول نہیں کی جاتیں حالانکہ ان میں سے اکثریت ان تاجران کی ہوتی ہے جنھوں نے رمضان کے پہلے بیس دنوں میں غریب عوام کی چمڑی ادھیڑی ہوتی ہے۔ نہ ہماری اخلاقیات پر حجِِ اکبر اور نہ ہی ہر سال عمرے فرق ڈال سکتے ہیں۔ دیکھنے میں بھی ہم نے وضع قطع ایسی بنائی ہوتی ہے جیسے ہم فرشتے ہوں۔ دنیا کے تمام ممالک کے لوگوں کی نسبت ہم سب سے زیادہ عمرے اور حج بھی کرتے ہیں لیکن بے ایمانی میں بھی دنیا میں ہمارا پہلا نمبر ہے۔ اس رمضان المبارک میں کمرمشانی میں اسسٹنٹ کمشنر عیسیٰ خیل نے دو دوکانداروں کی چینی کی ذخیرہ اندوزی پکڑی اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں حضرات کئی حج اور بیسیوں عمرے ہولڈر سرٹیفکیٹ کے حامل ہیں جبکہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے عید سے دو دن قبل کمرمشانی کے رہائشی ایک ایسے دوکاندار سے جعلی مشروبات بنانے کی فیکٹری جو پورے علاقہ میں زہر بیچ رہا تھا پکڑ لی جو نہ صرف 12 ربیع الاول پر دس دن پورے کمرمشانی شہر میں لگی سٹریٹ لائٹس پر ہزاروں روپے کی بتیاں لگا کر چراغاں کراتا ہے بلکہ عید میلاد پر لاکھوں روپے مالیت کی دیگیں بھی محلے میں تقسیم کرتا ہے اسی طرح ہر رمضان المبارک میں پورے خاندان سمیت عمرہ کرنے بھی ضرور جاتا ہے اور وہاں مدینہ منورہ میں جا کر رو رو کر بخشش کی دعاؤں کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر بھی چڑھاتے ہیں۔

میرا ایک دوست کینیڈا میں رہائش پذیر ہے گذشتہ عید پر جب وہ پاکستان آیا ہوا تھا میں نے اس سے سوال کیا کہ کینیڈا میں کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف کیا قانونی کاروائی کی جاتی ہے تو اس نے جواب دیا کہ وہاں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف کوئی قانون موجود ہی نہیں کیونکہ وہاں کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرنا تو دور کی بات ہے ان کی اخلاقیات اتنی اعلیٰ ہے کہ وہ اس بارے سوچ بھی نہیں سکتے۔ دوسری طرف ہمارے قول و فعل میں اتنا تضاد پایا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے کا درس دینے والوں کی مساجد کی لیٹرینیں دنیا کی سب سے گندی جگہ کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔ جنت میں خالص دودھ کی نہریں حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والے کیمیکل ملا زہریلا دودھ چھوٹے معصوم بچوں کو پلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اسی طرح گوشت کو آپ گائے بکری کی بجائے گدھے، گھوڑے یا پھر کتے کا گوشت کھلانے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ شوارما میں مردہ مرغیوں کا گوشت، چائے کی پتی میں لکڑی کا برادہ، کوکنگ آئل میں غلیظ جانوروں کی انتڑیاں، پِیسے ہوئے دھنیے میں گھوڑے کی لید ملانے حتیٰ کہ جان بچانے والی ادویات میں سرعام ملاوٹ کا رواج عام ہو چکا ہے اور یہ ملاوٹ کرنے والے کسی غیر مسلم ملک کے باسی نہیں بلکہ ہم خود ہیں جنھیں نہ تو کوئی قانون پکڑ سکتا ہے اور نہ ہی یہ شرم محسوس کرتے ہیں۔

یہ دین پوری انسانیت کا دین ہے اور اس کو لے کر آنے والے پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں نے سب سے پہلے اپنی ذات کے اوپر اس کو لاگو کر کے دکھایا اور پھر نجومی بن کر اور لوگوں کو اس کی دعوت دی لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم نے اس کو صرف دکھاوے کی عبادات تک محدود کر کے اپنے آپ کو نشان عبرت بنا دیا ہے۔ اور اس دین کے ایک عبادات والے حصے کو رکھ کر معاملات والا حصہ بالکل چھوڑ دیا ہے جو کہ اس دیں کی اصل روح ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود کہا ہے کہ میں اپنی رحیم والی صفت کے ناطے اپنی معاملات تو معاف کر دونگا لیکن دوسرے لوگوں کے ساتھ آپ کے معاملات کا پورا پورا حساب ہو گا اور شہید کے بارے میں کہا کہ زمین پر اس کے خون کا قطرہ گرنے سے قبل وہ جنت کے باغوں میں رہائش پذیر ہو جاتا ہے لیکن قیامت کے دن اسے بھی لوگوں کے ساتھ اپنے معاملات کی معافی کے بعد بخشا جائے گا۔

دراصل ہم نے مذہب کا ایک لبادہ ہے جو پوری طرح اوڑھ رکھا ہے جس سے ہم نہ صرف زیادہ سے زیادہ پیسے اکٹھے کرنے کی لالچ میں اپنی آخرت تباہ کر رہے ہیں بلکہ پوری ڈھٹائی سے دنیا میں اپنے مذہب کو بھی بدنام کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں
واپس کریں