دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"تھانہ کمرمشانی تاریخی ورثہ"
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
اکتوبر 1901 میں جب انگریز سرکار نے ہزارہ ، پشاور ، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان پر مشتمل شمال مغربی سرحدی صوبہ بنایا تو تحصیل میانوالی کو ضلع کا درجہ دے کر اسے ملتان ڈویژن میں شامل کر لیا۔ اس طرح ضلع بنتے ہی میانوالی میں مختلف ترقیاتی اور انتظامی تبدیلیاں بھی شروع ہو گئیں جن میں سب سے اہم پولیس کے نظام کو بھی وسعت دینے کیلئے ضلع بھر میں عیسیٰ خیل ، کمرمشانی اور کالاباغ سمیت کئی علاقوں میں پولیس تھانہ جات کی تعمیر کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ اس طرح عیسیٰ خیل اور کالاباغ کے ساتھ کمرمشانی میں بھی تھانہ کی تاریخی عمارت تعمیر کر دی گئی۔

مندرجہ بالا تینوں تھانوں کی عمارات کا قلعہ نما ڈیزائن بھی ایک ہی قسم کا رکھا گیا۔ اس کے بعد 1928 میں انگریز سرکار نے ماڑی انڈس سے ٹانک تک ریلوے ٹریک بچھا کر راستہ میں آنے والے بڑے قصبات میں ریلوے اسٹیشن کی عمارات بھی تعمیر کر دیں جو ساٹھ سال تک ہماری زندگی کا اہم حصہ رہیں لیکن یہ ریلوے ٹرین 1985 میں نہ صرف بند کر دی گئی بلکہ وہاں پر موجود ان ریلوے اسٹیشن کی تاریخی عمارات کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے یہ پُرشکوہ عمارات جن کے سینے میں ہمارے بزرگوں اور ماضی کے کئی نشیب و فراز کی یادیں محفوظ تھیں ان کو بڑی بے دردی سے منہدم کر دیا گیا۔ لیکن چونکہ تھانہ جات کی عمارات جو ابھی تک زیر استعمال ہیں وہ کافی حد تک بچی ہوئی ہیں لیکن وقت کی بجائے ہماری بیوروکریسی کی ستم ظریفی دیکھئے کہ عیسیٰ خیل اور کمرمشانی میں اب نئے تھانوں کی تعمیر کا کام شروع ہے تو عیسیٰ خیل تھانہ کے ساتھ وافر مقدار میں پولیس کی ملکیتی اراضی موجود ہونے کے باوجود پرانی اور تاریخی عمارت کو منہدم کر کے اس کی جگہ پر نئی عمارت تعمیر کی جا رہی ہے۔ اور اسی طرح اب کمرمشانی شہر میں بھی نئے تھانہ کی تعمیر پولیس کی ملکیتی اراضی زیادہ ہونے کی وجہ سے علیجدہ جگہ پر شروع ہے لیکن اس تھانہ کی بھی پرانی عمارت کو گرانے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے جبکہ انگلینڈ، امریکہ، چاپان سمیت کئی ممالک میں ہزاروں سال قدیمی عمارات کو ورثہ کے طور پر محفوظ بنایا گیا ہے۔

اسی طرح ہمارے پڑوسی ملک چائینہ نے اپنی کئی تاریخی عمارات کو بچانے کیلئے انھیں بنیادوں سے اکھیڑ کر دوسری محفوظ جگہ منتقل کر دیا ہے اور آپ نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہو گا کہ چائینہ میں ایک میٹرو ٹرین کے سامنے آنے والی کئی تاریخی عمارات کو گرانے کی بجائے ٹرین کو ان عمارات کے اندر سے گزار دیا گیا جبکہ انڈیا نے ریلوے کی تمام عمارات کو تاریخی ورثہ قرار دے کر ان کی حفاظت جاری رکھی ہوئی ہے۔ لیکن صرف ہم ہیں کہ اپنے ماضی کو اپنے ہاتھوں سے مٹانے کے درپے ہیں۔

اس سلسلہ میں میری ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر میانوالی مطیع اللہ خان نوانی اور پولیس کے ذمہ داران سے درخواست ہے کہ کمرمشانی تھانہ کی تاریخی عمارت کو گرانے سے بچایا جائے اور جتنا بجٹ اس کے گرانے پر لگانا ہے اس سے اس عمارت کی تزئین و آرائش کا کام کر کے اس میں "پولیس ویلفئیر سکول" قائم کر دیا جائے۔ اس طرح نہ صرف پڑھی لکھی قوموں کی طرح ہماری ایک تاریخی عمارت گرنے سے بچ جائے گی بلکہ اس سکول سے محکمہ پولیس کے ویلفئیر فنڈز میں ہر ماہ ایک اچھی خاصی رقم بھی جمع ہوتی رہی گے دوسری طرف کمرمشانی میں پولیس ویلفئیر سکول جیسے ایک اچھے تعلیمی ادارے کا اضافہ بھی ہو جائے گا جس سے ہماری نئی نسل مستفید ہو سکے گی۔
واپس کریں