عصمت اللہ نیازی
فارسی کا مشہور مصرعہ ہے کہ "شاعری جزویست از پیغمبری" اس کے معنی ہیں کہ شاعری پیغمبری کا ہی ایک حصہ ہے۔ بڑے بڑے شعرا کا دعوی بھی یہی رہا ہے کہ شاعری ایک روحانی فیضان کی شکل میں ان کے قلب پر وارد ہوتی ہے اور اس کی کیفیت کچھ ویسی ہی ہوتی ہے جیسی الہام کی ہوتی ہے۔ میں ذاتی طور پر مندرجہ بالا کہاوت سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کیونکہ آپ نے زندگی میں تجربہ کیا ہو گا اور دیکھا ہو گا کہ ایک پی ایچ ڈی شخص ایک شعر لکھنے سے قاصر نظر آتا ہے جبکہ دوسری طرف کئی ان پڑھ لوگ جنھوں نے سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا انکی شاعری پڑھ کر آدمی سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے اس کیفیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعری واقعی الہام کی ایک قسم ہے جو قدرت کی طرف سے اترتی ہے۔ اس سلسلہ میں گذشتہ دنوں ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والی معروف شاعرہ شفقت حیات شفق کے دوسرے شعری مجموعہ "بے خواب آنکھیں" کی تقریبِ پذیرائی میانوالی کے ایک نجی ہوٹل میں منعقد کی گئی۔ اس سے قبل ان کی پہلی کتاب "ابھی تصویر نامکمل ہے" مارکیٹ میں آ کر شاعری کی دنیا میں ایک خوشگوار اضافہ کر چکی ہے۔ میانوالی میں منعقد ہونے والی اس چھوٹی مگر پُروقار تقریب کے مہمانِ صدارت صحافی اور مصنف سلیم شہزاد تھے۔ معزز مہمانوں میں خالد سعید ایڈووکیٹ، طالب انصاری، مظہر نیازی، صابر بِھریوں، ظہیر احمد مہاروی اور جمیل اشرف جیسی ہمہ جہت شخصیات شامل تھیں جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض میانوالی کے سینئر صحافی، شاعر اور گیت نگار اختر مجاز نے سر انجام دئیے ۔اس موقع پر معزز مہمانوں نے شفقت حیات شفق کی شخصیت پر اپنی علمی بساط کے مطابق روشنی ڈالی۔ اگر بات کی جائے شفقت حیات شفق کی شخصیت کی تو وہ ایک مشرقی طبیعت کی خاتون ہیں جس کا ظاہر اور باطن دونوں سادگی سے لبریز ہے۔ شفق کو دنیا جہاں کی نعمتیں میسر ہیں جن میں خوبصورت گھر ، شوہر ، اولاد اور آج کے دور کی سب سے بڑی خواہش شہرت سمیت ہر نعمت اللہ پاک نے انکو دہلیز پر فراہم کر دی ہے لیکن آپ جب بھی شفق کی بے خواب آنکھوں کے راستہ انکی شخصیت کے سمندر میں اترنے کی کوشش کریں گے اور اگر جھیل میں تیرتی کنول نما آنکھوں میں ڈوبنے سے بچ گئے تو ان کی شخصیت کے کئی دریچے وا ہوتے نظر آتے ہیں جن میں سب سے اہم کھڑکی تو اس کمرے کی ہے جس کے ایک کونے میں شفق نے اپنے محبوب کو دنیا کی نظروں سے دور چھپا کر رکھا ہوا ہے لیکن آتے ہوئے خزاں موسم کے ہلکے زرد رنگ کے پھولوں کی طرح اداسی انکی آنکھوں سے ہمیشہ جھانکتی رہتی ہے حالانکہ شفق نے ہمیشہ اس منظر کو چھپانے کی پوری کوشش کی ہے لیکن تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔
اس منظر کو شفق خود یوں بیان کرتی ہیں کہ
میں اِس خیال سے پلکیں نہیں اُٹھاتی ہوں
اگر کُھلیں تو سبھی کو لگیں صدف آنکھیں
زندگی میں محبوب کا حصول نہ ہونا بھی شخصیت کا سب سے اہم پہلو بن جاتا ہے کیونکہ محبوب کے نہ ملنے سے نہ صرف ہجر کا درد ساری زندگی شراب کے نشہ کی طرح آہستہ آہستہ طاری رہتا ہے بلکہ انسان ساری زندگی اس نشہ کے ساتھ اپنے محبوب کی تلاش جاری رکھتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ شفق اکثر اوقات رات کے پچھلے پہر دنیا کی نظروں سے بچ کر اپنے محبوب کے ساتھ اکیلی بیٹھ جاتی ہیں اور کبھی اپنی نامکمل تصویر مکمل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو کبھی اپنی نیم وا بے خواب آنکھوں میں اپنے محبوب کے ساتھ مل کر اَن دیکھے سپنے سجانے کی کوشش کرتی ہیں
تو جو ملتا تو یہ فخر سے کہہ سکتی تھی
آسمانوں سے پرے ، میری دعا جاتی ہے
کس قدر اچھی ہے عادت میری تنہائی کی
وہ کہی دُور نہ جائے گی بتا جاتی ہے
زندگی کی چالیس بہاریں دیکھنے کے باوجود بھی شفق آج بھی اپنے محبوب سے ملنے کی آس لگائے بیٹھی ہے اور وہ اسی انتظار میں ہے کہ کہ کب اس کا محبوب آئے اور اسے سکون ملے اس سلسلہ میں وہ یوں اپنی خواہش کا اظہار کرتی ہے
مَیں اس کے چاک پہ رکھی ہوئی مدت سے
نہ نجانے کب مجھے دیکھے وہ کب بنائے مجھے
اُسے بھلائے ہوئے مدتیں ہوئیں شفقت
خدا کے واسطے اب تو سکون آئے مجھے
مختصر یہ کہ شفقت حیات شفق ایک لطیف جذبوں کی شاعرہ ہیں جس نے اس گھٹن زدہ معاشرے میں نہ صرف اپنے جذبوں کو انتہائی خوبصورت اور شائستہ زبان دی ہے بلکہ اپنی روزمرہ زندگی کو بھی متاثر کئے بغیر اپنے لکھنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں ہماری دلی دعا ہے کہ وہ ہمارے لئے اسی طرح اچھوتی شاعری لکھتی رہیں اور ہم اس سے لطف اندوز ہوتے رہیں میری طرف سے شفق کیلئے ایک شعر کہ
وہ جا چُکا، مگر اب تک برستا رہتا ہے
اُسی کا عکسِ "شفق" رنگ، میری شاموں پر
واپس کریں