امریکی این جی اوز اور عالمی عدم استحکام کا خفیہ منصوبہ
خالد خان۔ کالم نگار
عقل کو متحیر کرنے والی آمدہ معلومات کے مطابق، امریکہ عالمی سطح پر جاسوسی، انتشار، بغاوتوں، حکومتی تبدیلیوں اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے یو ایس ایڈ کے ذریعے 55 ہزار این جی اوز کو ڈیپ سٹیٹ سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
حال ہی میں فرکٹل ٹیکنالوجی میپنگ کے ذریعے انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر میں 55 ہزار غیر سرکاری تنظیمیں، جنہیں زبان زدِ عام میں این جی اوز کہا جاتا ہے، یو ایس ایڈ کی ڈیپ سٹیٹ نیٹ ورکنگ سے منسلک رہی ہیں۔
فرکٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والے اس انکشاف نے یو ایس ایڈ کے ان اخراجات کو طشت از بام کر دیا ہے جو پہلے پوشیدہ تھے۔ یہ جدید ٹریکنگ سسٹم خرچ ہونے والے ہر ڈالر کے استعمال کی نگرانی کر سکتا ہے اور ان پیچیدہ مالیاتی نیٹ ورکس کو بے نقاب کر رہا ہے جو روایتی ٹیکنالوجی کی گرفت سے آزاد تھے۔ یہ بے مثال میپنگ مالی تعلقات کے ایک ایسے خفیہ جال کو سامنے لے آئی ہے جو اب تک نظروں سے اوجھل تھا۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے جتنے بھی کام ہو رہے تھے، ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے یو ایس ایڈ کے تعاون سے چلنے والے میڈیا ادارے قائم کیے گئے ہیں جو ان سرگرمیوں کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان 55 ہزار این جی اوز کے پس پردہ کارروائیاں کچھ اور تھیں، مگر بظاہر انسانی فلاح و بہبود کے لیے جو پراجیکٹس کیے جا رہے تھے، ان کی غیر محسوس تشہیر کے لیے یو ایس ایڈ ان میڈیا اداروں کو استعمال کر رہی تھی اور خفیہ سرگرمیوں کو بظاہر اچھے کاموں کے پردے میں چھپا رہی تھی۔ عوام اور حکومتوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے جو بظاہر مثبت کام کیے جا رہے تھے، ان کی فنڈنگ مختلف ذرائع سے کی جاتی رہی اور یو ایس ایڈ فنڈڈ میڈیا کے ذریعے اس کے گُن گائے جاتے رہے۔
متعدد یورپی وی لاگرز کے مطابق، یو ایس ایڈ کی ڈیپ سٹیٹ سرگرمیاں بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، پاکستان اور سری لنکا میں رپورٹ ہوئیں، جہاں این جی اوز کو بعض متنازعہ موضوعات کو اٹھانے اور اجاگر کرنے کے لیے فنڈز فراہم کیے گئے۔ ان موضوعات میں چائلڈ لیبر، ڈیموں کے ماحولیاتی اثرات، کم عمری کی شادی، ہم جنس پرستی، سیاسی بیانیہ، انسانی حقوق، جینڈر رائٹس اور جمہوریت جیسے اہداف شامل تھے۔ جن ممالک میں امریکہ یو ایس ایڈ کے ذریعے یہ خفیہ مہمات چلا رہا تھا، ان ممالک کی فہرست میں حیران کن طور پر بھارت شامل نہیں ہے، جبکہ چین نے یو ایس ایڈ کو اپنے قومی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت ہی نہیں دی تھی۔
یو ایس ایڈ سے وابستہ میڈیا اداروں کی مکمل فہرست ابھی جاری نہیں ہوئی، لیکن مزید حیران کن معلومات سامنے آ رہی ہیں کہ یہ ادارہ مختلف سطحوں پر حکومتوں کی تبدیلی کے لیے مالی معاونت فراہم کرتا رہا ہے۔ اس میں احتجاجی مظاہروں میں شامل افراد کو ادائیگیاں، سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اور بینرز کی چھپائی، پوسٹرز، پمفلٹ، میڈیا ہاؤسز کے ذریعے خبروں کی اشاعت، مظاہرین کے لیے کھانے کی تقسیم، اور احتجاجی جلسوں کے لیے موسیقی اور سٹیج انتظامات کی فنڈنگ شامل ہے۔ یہ بھی رپورٹ ہوا ہے کہ یو ایس ایڈ کی یہ سرگرمیاں افغانستان میں بھی دیکھنے میں آئیں، جہاں دیگر ممالک کی طرح مختلف سماجی اور سیاسی معاملات پر اثر انداز ہونے کے لیے این جی اوز کو مالی معاونت دی گئی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس فیصلے، جس کے تحت یو ایس ایڈ کا بسترہ گول ہو چکا ہے، کے ساتھ ہی ڈیپ سٹیٹ رجیم چینج مشینری کے خاتمے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ ایک دلچسپ معلومات یہ بھی حاصل ہوئی ہے کہ امریکہ نے افغان طالبان کی مدد اور تعلقات قائم رکھنے کے لیے یو ایس ایڈ کے ذریعے کنڈومز کے لیے 15 ملین ڈالر کی امداد دی ہے۔ حیرت انگیز طور پر طالبان کی عبوری افغان حکومت نے بغیر مشتہر کیے 15 ملین ڈالر کی امداد برائے خاندانی منصوبہ بندی قبول کی ہے، جو ان کے بنیادی مذہبی عقیدے کے بالکل مخالف ہے۔ یو ایس ایڈ نے 15 ملین ڈالر کی یہ ادائیگی افغان عوام میں کنڈومز کی تقسیم کے لیے کی تھی۔
عالمی سطح پر جن ممالک میں جو موضوعات اٹھائے گئے، وہ ان کے مذہب، روایات، اقدار، تہذیب، ثقافت، قوانین، ترقی، امن، معاشرتی استحکام، سیاسی اتفاقِ رائے اور قومی مفادات کے خلاف تھے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے اہلِ دانش، آزاد میڈیا اور ریاستیں جب یہی باتیں کر رہی تھیں تو اس کو پروپیگنڈا سمجھا جاتا تھا، لیکن اب وہ تمام حقیقتیں خود امریکہ نے کھول کر رکھ دی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیپ سٹیٹ امریکہ بہت بری طرح ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما ہو چکے ہیں، جو اقوام کی آزادیوں اور بین الاقوامی طرف داریوں میں بڑی تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یو ایس ایڈ، امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کو بند کرنے کا فیصلہ کیا، جس کی بنیادی وجہ ادارے پر کرپشن اور دھوکہ دہی کے الزامات تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ یو ایس ایڈ کے فنڈز کا غلط استعمال ہو رہا ہے، اور یہ امریکی مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔ اس فیصلے کے تحت، یو ایس ایڈ کے 2,200 ملازمین کو جبری رخصت پر بھیجنے کا حکم دیا گیا، اور بیرونِ ملک تعینات تقریباً تمام ملازمین کو 30 دن کے اندر واپس بلانے کی ہدایت کی گئی۔
تاہم، اس اقدام کو قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی ڈسٹرکٹ جج کارل نکولس نے اس فیصلے پر عارضی پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے کانگریس کی منظوری کے بغیر یہ اقدام اٹھایا، جو کہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ عدالتی حکم کے مطابق، یو ایس ایڈ کے ملازمین کو جبری رخصت پر بھیجنے اور بیرونِ ملک سے واپس بلانے کے احکامات پر عمل درآمد روک دیا گیا۔
مزید برآں، یو ایس ایڈ کے انسپکٹر جنرل کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ادارے کو بند کرنے کا فیصلہ اس کی صلاحیتوں کو متاثر کرے گا اور عالمی سطح پر امریکی امدادی پروگراموں میں خلل پیدا کرے گا۔ اس رپورٹ کے بعد، انسپکٹر جنرل کو بھی برطرف کر دیا گیا۔
یہ اقدامات اور ان کے خلاف قانونی چیلنجز اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکی ڈیپ سٹیٹ منتخب صدر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں اور ایسے کسی بھی منصوبے اور نیٹ ورک کو بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی جو عالمی بساط پر امریکہ کی پوزیشن کو کمزور کر دے۔ دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ امریکہ نے دنیا کی فلاح و بہبود کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا ہے اور امریکی ٹیکس پیئرز کے پیسے وہ یوں دنیا میں نہیں بانٹ سکتے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ دنیا کی فلاح و بہبود سب خوشحال اور ترقی یافتہ اقوام اور ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
واپس کریں