خالد خان۔ کالم نگار
ہم تو سیدھے سادھے، لکیر کے فقیر مسلمان ہیں۔ بچپن سے بڑھاپے تک، گلی سے محلے تک، محلے سے گاؤں اور گاؤں سے شہر تک ہر عید، بقرہ عید اور جمعہ کو مولوی صاحبان سے ایک ہی بات سنی ہے: یہودی مسلمانوں کے دشمن ہیں اور شیعہ مسلمان نہیں۔ اہل تشیع کے بارے میں جو معروف نعرہ علمائے کرام کا ہے، اُسے یہاں نقل کرنے کی مجھ میں تو کم از کم ہمت نہیں ہے۔ خیر، ہمت تو اس نعرے کے گردان کے بہت سارے نامور علمائے کرام میں بھی نہیں ہے۔ شاید ہو، مگر چونکہ وہ سیاسی ہیں اور گاڑیوں پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے بھی شوقین ہوتے ہیں، تو مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوں گے۔ دہلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم بلند و بالا کرنا شاید انہیں اس لیے پسند نہ ہو کہ اسلامی پرچم قومی پرچم سے مختلف ہے۔
جو بھی ہو، لیکن ایک اخبار کی پیشانی پر بھی چھپتا ہے کہ: "اے مسلمانوں! یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ"، اور یہی مولوی صاحب کا بھی فرمانا ہے۔ ہماری تو ساری عمر یہودیوں کو بددعائیں دیتے ہوئے گزر گئی ہے، تو اب اس "آخری عمر" میں کیا خاک کافر ہوں گے کہ ان کے حق میں دعا کرکے اپنی دنیا کی طرح اپنی آخرت بھی تباہ کر دیں؟ دنیا تو ویسے بھی انہی یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں برباد ہو چکی ہے، اور اب ان کا ساتھ دے کر آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں؟
خیر، اگر ایران-اسرائیل جنگ میں عملی حصہ نہیں لے سکتے، زبانی کلامی تو اس جنگ میں کود سکتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک جانب مستند کافر ہے، تو دوسری جانب بھی تو سند یافتہ مسلمان نہیں ہے۔ تو پھر کیا کیا جائے؟ آیا دو غیر مسلموں کی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے یا دو کفار میں کم کافر کا ساتھ دینا چاہیے؟ ہم تو جاہل، ان پڑھ لوگ ہیں۔ اب علمائے کرام ہی راہنمائی فرما دیں۔ کسی بھی ایک فریق کو مسلمانی کا سرٹیفیکیٹ عطا کرنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ مگر یہاں بھی ایک مسئلہ ہے، اور وہ یہ کہ بائیں ہاتھ سے کام کاج کو اسلام میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بائیں ہاتھ کی کھپت دین میں صرف استنجا تک محدود ہے۔
کوئی فیصلہ تو کرنا ہوگا۔ ایک ملک کی سرحد ہم سے ملتی ہے۔ خطرہ تو ہے۔ اسی لیے تو سیانے کہتے ہیں: "پہلے تولو، پھر بولو"، مگر کیا کیا جائے جوشِ خطابت کا، کہ اس میں آدمی اول فول بکتا ہے۔ جیسے میں نے بک دیا ہے۔
واپس کریں