آمنہ مفتی
پچھلے دنوں ایک فلم دیکھی ’لاپتہ لیڈیز‘ پہلے تو ہنسی کہ لیڈیز تو ہوتی ہی لاپتہ ہیں یہ کون سی نئی بات ہے اور پھر رو پڑی کہ ہمارے ہاں تو جینٹس بھی مُسلسل لاپتہ ہو رہے ہیں اور ایسے کہ برسہا برس گزر جاتے ہیں، راستہ دیکھنے والی آنکھیں مند جاتی ہیں اور پکارنے والی آوازیں خاموش ہو جاتی ہیں۔کالج کے دنوں کا ذکر ہے کہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) میں ایک مباحثہ ہوا، جس کا عنوان تھا ’ماں پیو دے گھر منڈے تے سدا نئیوں رہندے۔‘ ایک مقرر نے آتے ہی کہا کہ یہ صورت حال ایسے پیش آتی ہے کہ لڑکے کی شادی ہوتی ہے اور بہو اسے لے کر الگ ہو جاتی ہے، دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ لڑکا دہی لینے گھر سے نکلتا ہے اور کوئی بوری ڈال کے اسے لے جاتا ہے اور ہاتھ پاؤں توڑ کے بھیک منگواتا ہے۔
آج کل ایک تیسری صورت بھی ہوتی ہے۔ کوئی گھر بیٹھے بیٹھے ایسی بات کر گزرتا ہے، جو نجانے کیوں کسی کو ناگوار ہوتی ہے اور وہ اسے لاپتہ کر دیتے ہیں۔چونکہ یہ سب خفیہ طریقے سے ہوتا ہے اس لیے ابہام رہتا ہے کہ آیا کہنے والے نے جو کہا وہ اتنا خطرناک تھا کہ اٹھانے والے ایک نہتے کو اٹھا کر لے گئے یا وہ کوئی ایسا سچ تھا کہ توپوں، بندوقوں والوں کو بھی اس سچ سے خوف آتا ہے۔
اس صورت میں ہوتا یہ ہے کہ اٹھایا جانے والا خودبخود ہیرو بن جاتا ہے، اٹھانے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ چارج شیٹ لگا کر گرفتار کرنے اور مقدمہ چلانے میں کیسا ڈر؟ کوتوال بھی سیاں ہیں اور منصف، عدالت، قاضی القضاۃ سبھی آشنا۔
بات مزید پراسرار ہو جاتی ہے کہ آخر ایسا کون سا سچ تھا، جس کی ایسی دہشت تھی۔ ڈھونڈنے والے، چشمے لگا لگا کے ڈھونڈتے ہیں اور پھر جو کچھ ان کے ہاتھ لگتا ہے اسے سچ مان لیتے ہیں اور اٹھائے جانے والے غیر معروف سے شخص کو گرو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
’لاپتہ جینٹس‘ ہیرو بن جاتے ہیں اور اٹھانے والے اچھے ولن بھی نہیں بن پاتے کیونکہ ولن کا کردار بہرحال ہیرو سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ ایسے بوڑم ولن، جو سائیڈ ٹریک سے بی کاسٹ کا بندہ اٹھا کے لائم لائٹ میں لے آئیں، کس کام کے؟یہ سب تو ہوتا ہے لیکن لاپتہ جینٹس کے گھر والے اس ڈرامے کو کسی اور طرح دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے وہ لاپتہ ایک نام نہیں، کردار نہیں، بلکہ اس سے ان کے رشتے جڑے ہوتے ہیں۔ کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا، کسی کا باپ ہوتا ہے۔
بعض اوقات یہ گھر کا واحد کفیل بھی ہوتا ہے۔ اس کے اچانک غائب ہو جانے سے نہ صرف دل پہ ہاتھ پڑتا ہے بلکہ میز پر سے روٹی بھی غائب ہو جاتی ہے۔ اکثر یہ لاپتہ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ ان کے گھر والے ان کے بغیر ایک ہفتے سے زیادہ گزارا بھی نہیں کر سکتے۔
اب وہ دور تو رہے نہیں کہ ایسے گھروں میں کوئی رات کی تاریکی میں راشن کے بورے چھوڑ جائے۔ راشن کے بورے لانے والے بھی ڈرتے ہیں کہ اگلی باری ہماری نہ آجائے۔
بغیر الزام لگائے، بغیر مقدمہ چلائے پراسرار طور پر اٹھا لیے جانے والے یہ لڑکے بھی ماں باپ کے گھر سدا نہیں رہتے۔ وہ مقرر جن کا نام غالباً کاشف تھا، آج جانے کہاں ہوں گے۔ جہاں بھی ہوں اگر پرانے کاغذوں میں یہ تقریر مل جائے تو حاشیے پہ یہ اضافہ کر لیں کہ ماں باپ کے گھر لڑکے اس صورت میں بھی سدا نہیں رہتے اور کئی دفعہ یہ منڈے نہیں خود باپ ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کے لڑکے یہ بھی سوچتے ہیں کہ وہ ریاست جو ماں جیسی ہوتی ہے، آخر ان کے باپوں کو بغیر وجہ بتائے کیوں غائب کر دیتی ہے۔
اگر ہمارے بس میں ہوتا تو تقریر پہ حاشیہ چڑھوانے کی بجائے ایک نیا مباحثہ کروا لیا جاتا، جس کا عنوان وہی ہوتا مگر بحث کا رخ بدل جاتا، یا تو اٹھانے والے ہمیں قائل کر لیتے یا ہم انہیں منا لیتے۔
اگر مباحثوں سے معاملے حل ہو جاتے تو آج معاملات یہاں تک آتے ہی کیوں؟ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، جانے کب تک ہمیں یہ تلخ باتیں دہرانا پڑیں گی۔ انسان اور انسانی حقوق ہر چیز سے اہم ہیں۔ ان کا احترام کیجیے۔
واپس کریں