دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کہتے ہیں اس گناہ کی ہوتی کوئی سزا نہیں
آمنہ مفتی
آمنہ مفتی
گذشتہ برس مئی کے یہی دن تھے، جب عمران خان کے 70 کی دہائی سے جاری، عوامی عشق پہ کڑا وقت آیا۔ وقت کڑا تھا، مقام نازک اور عشاق، بے تاب۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے، وہی ہوا جو ہر عشق کا انجام ہوتا ہے، ’نہ جنوں رہا نہ پری رہی۔آج عمران خان اس لیے یاد آگئے کہ وہ ہما ہمی جو پچھلے برس ان دنوں رہی تھی اس کی گرد ابھی بیٹھی نہیں ہے۔ کیا ہوا تھا، کس نے کیا تھا؟ سب پہ سازشی نظریات کا بادل چھایا ہوا ہے، مگر ایک بات واضح ہے کہ عمران خان کسی بھی روپ میں دوبارہ بھی نمودار ہو سکتے ہیں۔
گذشتہ برس جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا اور اس کے نتیجے میں فسادات پھوٹے تو میں باکو میں تھی۔ ملک سے دور ملک کی بہت فکر رہتی ہے۔ ایک سینیئر صحافی سے پوچھا تو انہوں نے دو ٹوک کہا ’اس کو واپس بوتل میں بند کریں گے اور کانٹ چھانٹ کے اتنا ہی رہنے دیں گے جتنا یہ تھا۔‘
ایک برس میں یہ ہی ہوا۔ عمران خان کو نہ صرف واپس بوتل میں بند کیا گیا بلکہ اتنا تراشا گیا کہ وہ ماضی کے عمران کا بونسائی بن کے رہ گیا۔ پارٹی کی کتر بیونت بھی کی گئی اور انتخابات میں صاف پیغام دے دیا گیا کہ وہ ایک پیج، جو کہ دل کی کتاب سے پھاڑا گیا تھا، اب اسے پرزہ پرزہ کر کے اڑا دیا گیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اور خان صاحب کے لافانی عشق کا یہ باب ختم تو ہو ہی چکا ہے اور عمران خان ایک کے بعد دوسرے مقدمے میں کبھی پکڑے جاتے ہیں اور کبھی رہا ہو جاتے ہیں مگر پھر کسی اور جرم کی سزا کاٹنے کو جیل ہی میں بیٹھے رہ جاتے ہیں۔
ملک کا تو جو ہونا تھا ہو گیا اور جو باقی ہے وہ بھی ہو ہی جائے گا۔ بقول فیض احمد فیض ’پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا،‘ مگر عمران خان کا کیا ہو گا؟ اسٹیبلشمنٹ کے دھتکارے ایسے سیاستدان کہاں جاتے ہیں؟ پاکستان کی تاریخ میں تو ان کے لیے زیادہ تر ایک ہی منزل ہوتی ہے۔اسٹیبلشمنٹ جس سے روٹھتی ہے وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ کم سے کم جلاوطنی اور زیادہ سے زیادہ موت۔ یہ ایک سادہ سی مساوات ہے، جسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کا سیکھنا ضروری نہیں۔
جلاوطن اور جیل میں بند معتوب کو اسی لیے زندہ رکھا جاتا ہے کہ کبھی بھی کسی بھی وقت نکال کے جھاڑ پونچھ کے ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے لگوا کر دوبارہ میدان میں اتارا جا سکے۔
جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اس کیفیت میں مبتلا ہونے میں تیزی بھی آگئی ہے اور اسے اب ’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘ ہونا کہتے ہیں۔ پہلے یہ سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے میں ایک پوری نسل بھی لگ جاتی تھی مگر اب حالات مختلف ہیں۔عمران خان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ نہیں ہو پایا۔ 70 کی دہائی سے ہر طرح سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا رہنے والا عمران خان نے جب عوام کی طاقت کو اپنے ساتھ دیکھا تو وہ چونک گیا۔ عمر بھر کا راستہ بدل گیا اور اگلا سٹاپ تھا، اٹک جیل۔
خیر، اب پارٹی کے پرزے ہو چکے ہیں۔ مقدمات کی طویل فہرست ہے اور قید خانہ۔ نو مئی کو ایک برس ہونے کے بعد بھی عمران خان کا انجام کچھ واضح نظر نہیں آرہا۔ رکھنے والے انہیں لا محدود وقت کے لیے بھی جیل میں رکھ سکتے ہیں، لکھوانے والے ان سے کتاب بھی لکھوا سکتے ہیں، بھیجنے والے انہیں جلاوطنی پہ بھی بھیج سکتے ہیں، بلانے والے انہیں بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں سیاست پہ لیکچر دینے کو بھی بلا سکتے ہیں اور جادو کی چھڑی پھر جائے تو انہیں پھر سے وزیر اعظم بھی بنا سکتے ہیں۔
71 سالہ خان نے گہما گہمی کی زندگی گزاری۔ ہم سے جن نعمتوں کا وعدہ آخرت میں کیا گیا ہے انہوں نے دنیا میں پا لیں۔ ستم ظریفی کہ پھر تائب ہو کر صوفی بھی ہو گئے۔ ’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔‘ اب بھی لگتا تو یہ ہی ہے کہ یا تو کوئی ڈیل کر کے پھر سے آجائیں گے یا کسی مغربی ملک میں سکونت پذیر ہوں گے اور وہاں کی اشرافیہ کی دعوتوں میں بیٹھ کے اپنے دل کش انداز میں کہا کریں گے، ’ویل، وین آئی واز دی پی ایم آف پاکستان۔۔۔۔۔۔۔‘
ہم جیسے تب بھی منہ کھولے ایسے ہی دیکھ رہے ہوں گے جیسے اپنے بچپن میں ان کے معاشقوں کے قصے سنتے تھے، جوانی میں ان کی کرکٹ کا جادو دیکھتے تھے اور اب ان کی بپا کی سونامی اور آخرش انارکی بھی دیکھی۔
ایسے شخص کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہو گا۔ ہاں اتنا ہے کہ ان کے چاہنے والے جو نومئی کے واقعات میں گرفتار ہوئے، انہیں اب معافی مل جانا چاہیے۔ وہ بے چارے، آپ کے میرے جیسے عام انسان ہیں۔ ان کے سر پہ کسی ہما کا سایہ نہیں۔
خاص کر جو طالب علم اور نوجوان گرفتار ہوئے انہیں آزاد ہو جانا چاہیے اور ان کے ریکارڈ سے یہ داغ بھی کسی نہ کسی صورت دھو دینا چاہیے کیونکہ ان کا قصور بھی وہی تھا جو اسٹیبلشمنٹ کا تھا۔ غلط وقت پہ غلط شخص سے محبت اور اس عشق میں حد سے گزر جانا۔ ’کہتے ہیں اس گناہ کی ہوتی کوئی سزا نہیں۔‘
واپس کریں